اور

وعدہ خلافیوں اور کہہ مکرنیوں کے 77 سال

ریاست جموں وکشمیر کے عوام ہرسال 5جنوری کے دن اقوام عالم کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 5جنوری 1949ء کی اس قرار داد کی پاسداری نہ ہونے کی یاد دلا تے ہیں جس میں کشمیری عوام سے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے لیے ایک آزادانہ اور منصفانہ استصواب کا وعدہ کیا گیاتھا۔ ریاست جموں وکشمیر برصغیر کی ان 584 ریاستوں میں سے ایک بدقسمت ریاست تھی جنہیں 3جون 1947ء کے تقسیم ہند کے منصوبے میں اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیاتھا۔ کشمیر کے عوام نے قیام پاکستان سے 26 دن پہلے ہی 19جولائی 1947ء کے دن سرینگر میں اپنی نمائندہ جماعت کل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اجلاس میں اکثریت کے ساتھ پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن مہاراجہ کشمیر اس سے پہلے ہی کچھ وطن فروش کشمیری سیاستدانوں کو ساتھ ملا کر بھارتی نمائندوں کے ساتھ سازباز کر کے مسلمانوں کو بھارت کی مستقل غلامی میں جھونکنے کا منصوبہ بنا چکا تھا۔ اس سازش کے تحت حدبندی کمشن نے بھی اخلاقیات کا جنازہ نکالتے ہوئے صرف ایک تحصیل پٹھانکوٹ میں ہندوؤں کی اکثریت کو بنیاد بنا کر مسلم اکثریت کا ضلع گورداسپور بھارت کے حوالے کر کے بھارت کو ریاست میں داخلے کے لیے زمینی راستہ مہیا کر کے کشمیر پر قبضے کی راہ ہموار کردی۔ مہاراجہ نے پاکستان سے ساتھ الحاق کے سلسلے میں تاخیری حربے اختیار کر کے بھارت کو اپنی فوجیں سرینگر میں اتارنے کا موقع فراہم کر دیا۔ ریاست کے ڈوگرہ حکمرانوں نے پیش بندی کے طور پر ریاست کی فوج اور پولیس کے مسلمان اہلکاروں سے اسلحہ واپس لے کر انہیں نہتا کر دیا تاکہ وہ مزاحمت نہ کرسکیں۔

بھارت کی فوج نے ڈوگروں کے ساتھ مل کر ریاست کے طول و عرض میں ظلم وبربریت کا بازار گرم کر دیا اور خوف و دہشت پھیلا کر ریاست کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا لیکن کشمیری مجاہدین نے مزاحمت کر کے ریاست کا کچھ حصہ آزاد کروا کے بھارتی اور ڈوگرہ فوجوں کے تعاقب میں سرینگر تک جا پہنچے۔ بھارت کو جب یقین ہو گیا کہ کشمیری مجاہدین کسی بھی وقت سرینگر پر قبضہ کر لیں گے تویکم جنوری 1948ء کو اس نے دہائی دیتے ہوئے اقوام متحدہ کا دروازہ جا کھٹکھٹایا لیکن وہاں اس کے کشمیر پر دعوے کو مسترد کر دیا گیا۔اقوام متحدہ نے اس سلسلے میں 13 اگست 1947ء کو ابتدائی قرارداد منظور کی جس میں پاکستان سے اپنی فوجوں اور قبائلیوں کو نکالنے اور مقامی انتظامیہ کو انتظام سنبھالنے کا کہا گیا لیکن اس میں بھارتی فوجوں کے انخلاء کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ 5جنوری 1949ء کو کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے ایک جامع قرارداد منظور کی جس میں کشمیریوں کے ناقابل تنسیخ حق کو تسلیم کیا گیا اور اس کے لیے ایک آزادانہ استصواب کے انعقاد کا وعدہ کیا گیا۔یہ قرارداد کشمیری مسلمانوں کے جائز اور قانونی حق کی ضمانت دیتی ہے اور اس کے لیے ایک پائیدار بنیاد فراہم کرتی ہے۔ 14مارچ 1950ء کو سلامتی کونسل نے دونوں ملکوں کو بیک وقت اپنی فوجیں ریاست سے نکالنے کی قرارداد منظور کی۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کوکہا گیا کہ وہ اپنی زیادہ فوج کو ہٹالے اور صرف اتنی تعداد کو موجود رکھے جو امن وامان برقرار رکھنے کے لیے مقامی انتظامیہ کی مدد کرتی رہے۔

پاکستان نے ان قراردادوں پر عملدرآمد کی مکمل یقین دہانی کروائی لیکن بھارت نے نیم دلی سے انہیں تسلیم تو کیا لیکن درپردہ وہ کشمیر پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کی جستجو میں لگارہا۔ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد سے گریز کی راہ پر چلتا رہا اور دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لیے بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے متعدد مواقع پر کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ کیا اور 16 جنوری 1951 ء کولندن میں ایک پریس کانفرنس میں اس بات کا پھر اعادہ کیا کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ خود کشمیر کے عوام نے ہی کرنا ہے لیکن دنیا نے دیکھا کہ کس طرح بھارت نے اپنے ہی وزیراعظم کے وعدوں کو ہٹ دھرمی سے پس پشت ڈالتے ہوئے ستمبر1951 ء اپنے زیر قبضہ ریاست میں قانون ساز اسمبلی قائم کر کے اس سے اس نام نہاد الحاق کی دستاویز کی توثیق بھی کر والی جو اس نے زبردستی مہاراجہ سے حاصل کی تھی۔ اس کے بعد بھی بھارت کشمیر میں انتخابات کا ڈول ڈالتا رہا لیکن اقوام متحدہ نے اپنی ایک قرارداد کے ذریعے باور کروایا کہ یہ انتخابات کسی صورت رائے شماری کا متبادل نہیں ہوسکتے۔ کشمیری عوام اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد پر تاخیری حربوں اور بھارتی راہنماؤں کی وعدہ خلافیوں سے تنگ آ کر 1980ء کی دہائی میں بھارتی خوف ووہشت کے بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے میدان عمل میں نکل کر عالمی توجہ اس طرف مبذول کروالی جس کے لیے انہیں خاک وخون کے سمندر سے گزرنا پڑا۔

بھارت نے ان کے عزم کو کچلنے کے لیے ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ ڈالے اور انہیں زیرکرنے کے لیے ایسے ایسے ظالمانہ حربے اختیار کیے گئے جنہوں نے نازیوں کے مظالم کو بھی شرما دیا لیکن کشمیری عوام کی جرأت اور استقامت میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا۔ بھارت نے اس سے آگے بڑھتے ہوئے 22فروری 1994ء کو جموں وکشمیر کو اپنالازمی حصہ قرار دینے کے لیے اپنے دونوں ایوانوں سے ایک متفقہ قرارداد منظور کروا کر اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کو جنازہ نکال دیا۔ اس سے پہلے تو بھارت نے دنیا کو دکھانے کے لیے جموں و کشمیر کو اپنے آئین میں نیم خودمختاری دے رکھی تھی لیکن جب اس نے دیکھا کہ دنیا نے جموں وکشمیر کے بارے میں اس کے اب تک کیے گئے تمام اقدامات سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے تو 5 اگست 2019ء کو اس نے انتہائی شرمناک قدم اٹھاتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کی نیم خودمختاری پر شبخون مار کر اسے اپنے یونین کا حصہ بنا کر دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے پر خود ہی کالک مل دی۔

حق خودارادیت بین الاقوامی قانون کا ایک بنیادی اصول ہے اور اقوام متحدہ کے شہری اور سیاسی حقوق کے معاہدے میں تمام انسانوں کے اس بنیادی حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے طویل عرصے سے موجود ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل کونسل اور سلامتی کونسل کی درجنوں قراردادیں موجود ہیں لیکن ابھی تک ان پر عملدرآمد کو نوبت نہیں آئی۔ سوال یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ جو انڈونیشیا ااور سوڈان کے اندر سے ہی نئے عیسائی ملک بنا سکتا ہے اور عراق و لیبیا کو اپنی قراردادوں پر عمل نہ کرنے کی سزا دینے کے لیے راتوں رات قراردادیں منظور کر کے ان کی اینٹ سے اینٹ بجوا سکتا ہے تو وہ جموں وکشمیر کے معاملے پر ابھی تک اپنی ہی منظورکی ہوئی قراردادوں پر عملدرآمد کیوں نہیں کروا سکا؟کشمیری آج بھی بھارت کی کہہ مکرنیوں کی قیمت اپنی جانیں قربان کربکے دے رہے ہیں اور اقوام متحدہ کے وعدوں کے ایفاء ہونے کے انتظار میں ہیں!!!


؎ اے خدائے پاک! داروگیر اب کشمیر ہے!
ظلم کی منہ بولتی تصویر اب کشمیر ہے!
داستانیں ظلم و استبداد کی لکھی گئیں!
یا الہی! سوختہ تقدیر اب کشمیرہے!

برطانیہ Previous post یوکرین اور برطانیہ کے درمیان 100 سالہ شراکت داری کے معاہدے پر دستخط
تاجکستان Next post ایرانی صدر مسعود پزشکیان کا تاجکستان کے ساتھ تعلقات کے فروغ پر زور