
پاکستان امن کا خواہاں ہے، جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا: اسحاق ڈار
اسلام آباد: پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے جمعرات کو واضح طور پر خبردار کیا ہے کہ اگر بھارت نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم کیا تو پاکستان بھی شملہ معاہدے اور دیگر دوطرفہ معاہدوں سے دستبرداری پر سنجیدگی سے غور کرے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینئر کابینہ ارکان کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔
انہوں نے کہا: “اگر بھارت سندھ طاس معاہدہ ختم کرتا ہے تو پاکستان شملہ معاہدے سمیت دیگر معاہدے ختم کرنے پر غور کرے گا۔ ہمیں بیرونی مدد کی ضرورت نہیں، بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے۔”
اسحاق ڈار نے بھارت کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی کے الزامات کو “بے بنیاد پراپیگنڈہ” قرار دیا اور کہا کہ اگر بھارت کے پاس کوئی ثبوت ہے تو اسے سامنے لائے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان نے سری نگر میں کچھ “غیر ملکی عناصر” کی موجودگی کی نشاندہی کی ہے، جن کی نگرانی خفیہ ادارے کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ افراد مبینہ طور پر بارودی مواد اسمگل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور بھارتی انٹیلی جنس ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
“آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کا ہدف کہاں تھا،” ڈار نے کہا، ساتھ ہی یہ یقین دہانی کروائی کہ پاکستان کی مسلح افواج مکمل طور پر چوکس اور تیار ہیں۔
بھارت سے سفارتی تعلقات میں نمایاں کمی
اس موقع پر اسحاق ڈار نے واہگہ بارڈر کی فوری بندش اور اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے عملے کو 30 افراد تک محدود کرنے کا اعلان کیا، جو کہ 30 اپریل سے مؤثر ہوگا۔ ساتھ ہی بھارت کے دفاعی، فضائی اور بحری اتاشیوں کو ناپسندیدہ شخصیت (Persona non Grata) قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
انہوں نے سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے بھارتی دہشتگردی پر ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت کی علاقائی جارحیت کے پس منظر کو بھی اجاگر کیا۔ ڈار نے بنگلہ دیش اور کابل کے مجوزہ دورے منسوخ کرتے ہوئے موجودہ صورتحال سے نمٹنے کو ترجیح دی۔
“بھارت 24 کروڑ پاکستانیوں کا پانی نہیں روک سکتا۔ اگر اس نے ایسی کوشش کی تو یہ جنگ کے مترادف ہوگی،” انہوں نے خبردار کیا اور کہا کہ پاکستان ہر صورت حال کے لیے تیار ہے اور عالمی بینک کو، جو سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے، بھارت کی ممکنہ خلاف ورزی سے آگاہ کرے گا۔
قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس
یہ پریس کانفرنس قومی سلامتی کمیٹی (NSC) کے اجلاس کے بعد ہوئی، جس میں سول اور عسکری قیادت نے بھارت کے خلاف متعدد جوابی اقدامات کی منظوری دی، جن میں:
- بھارتی تجارتی پروازوں پر پاکستانی فضائی حدود کی بندش
- بھارتی اتاشیوں کی ملک بدری
- بھارتی شہریوں کو 48 گھنٹوں میں پاکستان چھوڑنے کا حکم (سکھ یاتری مستثنیٰ)
بھارتی میڈیا کی “جھوٹی چالیں” اور مودی پر شدید تنقید
وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھارت پر بارہا “فالس فلیگ آپریشنز” کے ذریعے پاکستان پر الزام تراشی کا الزام لگایا اور کہا کہ پہلگام واقعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
انہوں نے کہا: “ابھی تک بھارتی حکومت نے اس حملے میں پاکستان کا نام رسمی طور پر نہیں لیا، حالانکہ بھارتی میڈیا مسلسل الزام تراشی کر رہا ہے۔” انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو “سرٹیفائیڈ دہشتگرد” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “آج تک کسی امریکی حکومت نے کسی وزیراعظم کو ویزا نہ دینے کا فیصلہ نہیں کیا، لیکن مودی کو گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے باعث ویزا نہیں دیا گیا تھا۔”
وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ بھارت کا رویہ صرف “بچگانہ بیانات” تک محدود نہیں رہے گا کیونکہ پاکستان نے عملی اقدامات اٹھا لیے ہیں، جن کا اثر بھارتی ایئرلائنز پر بھی پڑے گا۔
سندھ طاس کمیشن کی وضاحت
پاکستان کے سندھ طاس کمیشن کے ایک اہلکار کے مطابق یہ معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا: “دو جنگوں کے دوران بھی یہ معاہدہ قائم رہا، جب تک دونوں ممالک متفق نہ ہوں، یہ ختم نہیں ہو سکتا۔”
پاکستان نے عالمی بینک کو بھارت کے ممکنہ اقدامات سے آگاہ کر دیا ہے اور دیگر سفارتی آپشنز پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
یہ پیشرفت جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی عکاس ہے، جہاں دونوں جوہری قوتیں ایک بار پھر تصادم کے دہانے پر نظر آ رہی ہیں۔