
فلسطین کو تسلیم کرنے کے معاملے پر فرانس کا خودمختار مؤقف، غزہ میں ظلم کے خاتمے کا مطالبہ
پیرس، یورپ ٹوڈے: فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں-نوئل بارو نے منگل کے روز ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حوالے سے فرانس کا مؤقف آزاد اور خودمختار ہے، اور اس کی خارجہ پالیسی کسی بیرونی طاقت کے دباؤ میں نہیں آئے گی۔ ان کا یہ بیان غزہ کی جنگ اور اسرائیل کے ساتھ بڑھتی ہوئی سفارتی کشیدگی کے تناظر میں سامنے آیا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب صدر ایمانوئل میکرون جون میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں سوال و جواب کے سیشن کے دوران خطاب کرتے ہوئے، بارو نے زور دیا کہ فوجی طاقت کے بجائے سفارت کاری ہی مسائل کا حل ہے۔ ان کا کہنا تھا: “کوئی بھی فرانس کو اس کا مؤقف اختیار کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ فرانس وہ کرے گا جو ایک پائیدار سیاسی حل پر یقین رکھتا ہے—جو نہ صرف اسرائیل کی سلامتی بلکہ فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔”
بارو نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی زیر قیادت غزہ میں جاری فوجی کارروائیوں پر تنقید کی اور کہا کہ یہ حکمت عملی اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہا: “جن سنگین اقدامات کا وعدہ نیتن یاہو کی حکومت نے کیا تھا، ان سے نہ تو یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہوئی اور نہ ہی حماس کو غیر مسلح کیا جا سکا۔”
انہوں نے موجودہ حکمت عملی میں فوری تبدیلی پر زور دیتے ہوئے کہا: “اب طاقت کی جگہ مذاکرات کو دینا ہوگا—جنگ بندی کے لیے، غزہ میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی کے لیے، اور ان تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جو حماس کی سرنگوں میں قید ہیں۔”
بارو کے مطابق، فرانس اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حمایت میں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، تاکہ ایک وسیع تر امن عمل کی راہ ہموار کی جا سکے۔
ان کے اس بیان کے فوراً بعد اسرائیلی وزیر خارجہ گدعون سعار نے شدید ردعمل دیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک بیان میں فرانسیسی مؤقف کو دہشت گردی کے لیے انعام قرار دیا۔ سعار نے کہا: “موجودہ زمینی حقائق میں کسی بھی ملک کی جانب سے ایک غیر حقیقی فلسطینی ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنا دہشت گردی کے لیے انعام اور حماس کے لیے تقویت ہو گا۔”
تاہم فرانس دو ریاستی حل کے لیے اپنی حمایت پر قائم ہے، اور وہ اسرائیلی و فلسطینی عوام دونوں کے لیے سیاسی ذرائع سے امن اور سلامتی کے قیام کا حامی ہے، نہ کہ فوجی طاقت سے۔ فرانس کا یہ مؤقف اس عالمی دباؤ کا بھی عکاس ہے جو سات ماہ سے جاری غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے ایک مذاکراتی حل کی جانب بڑھنے پر زور دے رہا ہے۔