
فرانس کا الجزائری سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان، دوطرفہ کشیدگی میں نیا موڑ
پیرس، یورپ ٹوڈے: فرانس نے بدھ کے روز اعلان کیا ہے کہ وہ جوابی اقدام کے طور پر الجزائری سفارتکاروں کو ملک بدر کرے گا، جس کا مقصد الجزائر کی جانب سے حال ہی میں مزید فرانسیسی اہلکاروں کی ملک بدری کے فیصلے کا جواب دینا ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے کشیدہ سفارتی تعلقات میں مزید تناؤ کا سبب بن گیا ہے۔
فرانسیسی وزیرِ خارجہ ژاں-نوئیل بارو نے ٹیلی ویژن چینل BFMTV سے گفتگو کرتے ہوئے الجزائر کے فیصلے کو “غیر ضروری اور ناقابلِ جواز” قرار دیا اور کہا کہ فرانس کا ردِعمل “بالکل متناسب” ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ الجزائر کے ناظم الامور کو طلب کر کے فرانسیسی فیصلے سے باضابطہ طور پر آگاہ کیا جائے گا۔
بارو نے ملک بدر کیے جانے والے الجزائری سفارتکاروں کی تعداد نہیں بتائی، تاہم انہوں نے یہ واضح کیا کہ “دوطرفہ تعلقات اب مکمل طور پر منجمد ہو چکے ہیں۔”
سفارتی جنگ میں شدت
یہ پیشرفت الجزائر کی جانب سے ان فرانسیسی حکام کو واپس بھیجنے کے بعد سامنے آئی ہے جو وہاں عارضی معاون مشن پر تعینات تھے۔ فرانسیسی سفارتی ذرائع کے مطابق یہ اہلکار مستقل عملے کا حصہ نہیں تھے، تاہم ان کی تعداد یا واپسی کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔
یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں فرانس نے الجزائر کے 12 سفارتکاروں اور قونصلر عملے کو ملک بدر کیا تھا اور اپنا سفیر بھی واپس بلا لیا تھا، جو کہ الجزائر کی طرف سے اسی تعداد میں فرانسیسی اہلکاروں کی ملک بدری کے جواب میں کیا گیا تھا۔ اس کشیدگی کا آغاز الجزائر کے ایک اہلکار کی فرانس میں گرفتاری سے ہوا تھا۔
بڑھتی ہوئی کشیدگی
گزشتہ ایک برس کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات میں بتدریج بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ ایک بڑا تنازع اس وقت سامنے آیا جب فرانس نے متنازع علاقے مغربی صحارا پر مراکش کی خودمختاری کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا، جبکہ الجزائر وہاں آزادی کے حامی پولیساریو فرنٹ کی حمایت کرتا ہے۔
نومبر 2024 میں فرانسیسی-الجزائری مصنف بوالعم سَنسال کی الجزائر میں گرفتاری اور قومی سلامتی کے الزامات کے تحت ان پر مقدمہ چلائے جانے نے بھی فرانس اور انسانی حقوق کے گروہوں کی جانب سے شدید ردعمل کو جنم دیا۔
تاریخی پس منظر میں جاری کشیدگی
موجودہ اختلافات کے پیچھے صرف حالیہ تنازعات ہی نہیں بلکہ تاریخی زخم بھی کارفرما ہیں۔ الجزائر پر فرانسیسی نوآبادیاتی دور اور 1954 سے 1962 تک جاری رہنے والی خونریز جنگِ آزادی آج بھی دونوں ممالک کے تعلقات پر سایہ فگن ہے۔ مصالحتی کوششیں اکثر تعطل کا شکار رہی ہیں، اور دونوں فریق ایک دوسرے پر ماضی سے چشم پوشی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔
بہتری کی کوئی فوری امید نہیں
وزیرِ خارجہ بارو کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سفارتی تعطل اب جمود کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا، “تعلقات اب مکمل طور پر منقطع ہو چکے ہیں،” جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پہلے جو اعلیٰ سطحی سفارتی بات چیت ہوا کرتی تھی، وہ اب بند ہو چکی ہے۔
یہ سفارتی بحران ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک داخلی سطح پر چیلنجز سے نبرد آزما ہیں اور شمالی افریقہ اور بحیرہ روم کے خطے میں اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کشیدگی اگر برقرار رہی تو مہاجرت، انسدادِ دہشت گردی اور علاقائی استحکام جیسے اہم معاملات پر دوطرفہ تعاون کو متاثر کر سکتی ہے۔
یہ ابھی واضح نہیں کہ آیا کوئی خفیہ سفارتی چینل یا یورپی ثالثی کوششیں دونوں فریقین کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لا سکیں گی۔ فی الوقت، دونوں ممالک سخت گیر موقف اختیار کیے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔