
حق کی تلوار اور ظلم کا تخت
انسانی تاریخ میں کچھ ایسے نام بھی ہیں جنہوں نے اپنے کردار، قربانی، فضیلت اور غیر متزلزل اصولوں کی بدولت ایسا ابدی مقام حاصل کیا ہے کہ ان کی بازگشت صرف وقت کے گزرنے سے نہیں بلکہ انسانیت کے ضمیر میں گہرائی تک سنائی دیتی ہے۔ ان نادر اور عظیم ہستیوں میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا نام نمایاں ہے، جو نبی کریم ﷺ کے پیارے نواسے ہیں۔ ان کا نام نہ صرف تاریخِ اسلام کے اوراق پر سنہری حروف میں لکھا گیا ہے بلکہ انسانیت کے ضمیر پر سچائی، مزاحمت اور اخلاقی جرأت کی علامت کے طور پر نقش ہو چکا ہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی کربلا کا واقعہ صرف تاریخ کا ایک باب نہیں بلکہ یہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کی ایک لازوال گواہی ہے، جو زندگی کی قربانی دے کر بھی سچائی پر قائم رہنے کا درس دیتی ہے۔ آپ نے یزید کی ظالمانہ حکومت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا، نہ ہی وقتی مصلحتوں کو اپنے اخلاقی نظریے پر حاوی ہونے دیا۔ آپ کا موقف کسی اقتدار یا دنیاوی خواہش کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک مقدس امانت کا تقاضا تھا—حق کا علم بلند رکھنا، اپنے نانا حضرت محمد ﷺ کی میراث کا تحفظ کرنا، اور اسلام کو ایک ظالم حکمران کے ہاتھوں مسخ ہونے سے بچانا۔ جب ہر طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑےاور تمام وسائل ختم ہو گئے، تب بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے خوف کے آگے جھکنے کے بجائے سر بلند کیا۔ اسی استقامت کے صلے میں آپ کو شہادت کا عظیم رتبہ اور دائمی عزت نصیب ہوئی۔
قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے:
“اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں، ان کو مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، رزق دیے جا رہے ہیں۔”
(سورۃ آلِ عمران، 3:169)
یہ آیت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور اُن کے ساتھیوں کی شہادت کو موت نہیں بلکہ ایک مقدس بلندی، ایک روحانی عروج قرار دیتی ہے۔ یہ شہادت ایک افسوسناک انجام نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں جاں نثاری کا ابدی اعزاز ہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا لہو جو کربلا کی ریت پر بہا، وہ ہرگز رائیگاں نہیں گیا۔ یہ لہو ضمیر کی فتح، عزت کی سر بلندی اور ظلم کے مقابل ڈٹ جانے کی عظیم علامت بن گیا۔ اگرچہ اُس المناک دن کو صدیاں بیت چکی ہیں، مگر کربلا آج بھی زندہ ہے—مایوسی کی داستان کے طور پر نہیں، بلکہ ظلم کے خلاف جرأت کی ایک بلند نشان کے طور پر۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “سب سے بہترین جہاد وہ ہے جو ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہی جائے۔”
اور اس قولِ مبارک کی سب سے روشن مثال کوئی ہے تو وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہی ہیں—آپ ﷺ کے پیارے نواسے، جنہوں نے سچائی کو جان سے عزیز رکھا۔
ظلم و جبر کے طریقے وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں، مگر ان کا اصل چہرہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے ۔ حالیہ دور میں، غزہ میں معصوم بچوں کا قتلِ عام، کشمیر میں جاری بے رحمانہ ظلم، افغانستان اور شام میں عزتِ انسانی کا انکار اور روہنگیا مسلمانوں کا نسل کشی سے بچ کر دربدر ہونا—یہ سب کربلا کی روح کی بازگشت ہیں۔
تاریخ آج بھی یزیدیت کے نئے چہروں کی گواہی دیتی ہے۔
تاہم، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا پیغام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے۔ ہر سال جب محرم کا مقدس مہینہ لوٹتا ہے، تو دنیا بھر کے مسلمان یومِ عاشورہ کو مایوسی یا بے بسی کے ساتھ نہیں، بلکہ ایک نئے عزم اور تجدیدِ وفا کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔
یہ آنسو صرف غم نہیں ہوتے—یہ وفاداری کی علامت ہوتے ہیں۔ یہ دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ حسینؑ آج بھی زندہ ہیں—ہر اُس دل میں جو ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے، ہر اُس روح میں جو اصول کو غلامی پر ترجیح دیتی ہے۔
حسینیت کی یہ روح نہ سرحدوں کی محتاج ہے، نہ مسلک کی، نہ زبان کی۔ یہ صرف شیعہ یا سنی، عرب یا عجم تک محدود نہیں۔ یہ ہر اُس جگہ زندہ ہے جہاں ظلم کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے۔
چاہے وہ فلسطینی بچے کی جرأت ہو، کشمیری ماں کی دعا ہو، یا کسی بھی مظلوم کی وہ پکار جو اقتدار کے ایوانوں کے سامنے حق کی بات کہنے کی جرأت رکھتی ہے—حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا پیغام اُن سب کے اندر سانس لیتا ہے۔
وہ ماضی کی کوئی داستان نہیں، بلکہ ہر عدل و انصاف کی جدوجہد میں ایک زندہ و متحرک قوت ہیں۔
اور ایسے مواقع پر جو لوگ سچ کا ساتھ نہیں دیتے، مظلوموں کی حمایت نہیں کرتے، اور خاموش رہتے ہیں، وہ درحقیقت یزیدیت کے حامی شمار ہوتے ہیں۔ ظلم کے مقابلے میں غیر جانب داری، معصومیت نہیں بلکہ شراکتِ جرم ہے۔ جو حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا ہونے سے انکار کرتا ہے، وہ یزید کے پہلو میں کھڑا ہوتا ہے۔ ظلم پر خاموشی خود ایک قسم کی غداری ہے۔
ہر اُس یزید کے مقابلے میں، جو خوف کے ذریعے سچ کو دبانا چاہتا ہے، وہاں ایک حسین رضی اللہ عنہ ضرور اُٹھے گا جو ایمان سے جواب دے گا۔ ہر اُس نظام کے مقابلے میں جو جھوٹ اور جبر پر قائم ہو، ایک ایسی آواز ضرور بلند ہوگی جو سمجھوتے کی خاموشی کے بجائے قربانی کی تلوار کو چن لے گی۔
حسینیت اور یزیدیت کی جاری اس جنگ میں غیر جانب داری دراصل شریکِ جرم ہونا ہے۔ ہر انسان کو فیصلہ کرنا ہے—ایک باعزت زندگی کا، چاہے وہ میدانِ جنگ میں ختم ہو جائے، یا ایک آرام دہ زندگی کا جو ظلم کے قدموں میں زنجیروں سے بندھی ہو۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے عزت کا راستہ چُنا، اور اس انتخاب کے ذریعے اُنہوں نے ہر اس شخص کے لیے راستہ روشن کر دیا جو وقار اور غیرت کے ساتھ جینا چاہتا ہے۔
روحِ کربلا ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایک شخص کا انکار بھی تاریخ کا رخ بدل سکتا ہے۔ یہ کہ سچ جب جرأت سے جُڑ جائے تو تمام ظالموں سے زیادہ دیرپا ثابت ہوتا ہے۔ یہ جنگ کربلا میں ختم نہیں ہوئی تھی۔ یہ ہر اُس سرزمین میں جاری ہے جہاں ظلم پنپ رہا ہو۔
لیکن جب تک دل سچائی کے لیے دھڑکتے رہیں گے، جب تک مظلوم سر اُٹھاتے رہیں گے، اور جب تک انسانیت بزدلی کے بجائے اخلاقی بصیرت کو چنے گی— حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
غم کا نام نہیں، بلکہ مزاحمت کا عَلَم بن کر۔
دکھ کی یاد نہیں، بلکہ انصاف کا وعدہ بن کر۔
اور ایک شہید کے طور پر نہیں جو گر گیا ہو، بلکہ ایک ایسی روح کے طور پر جو ہمیشہ کے لیے بلند ہو چکی ہے۔