
ٹرمپ نے 70 سے زائد تجارتی شراکت داروں پر ٹیرف ریٹس میں رد و بدل کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کر دیا
واشنگٹن، یورپ ٹوڈے: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت تقریباً 70 تجارتی شراکت دار ممالک کے ساتھ تجارتی محصولات (ٹیرف ریٹس) میں مزید ترامیم کی گئی ہیں۔ یہ خبر مختلف بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق، اس آرڈر کے تحت “بعض تجارتی شراکت داروں کی مصنوعات پر اضافی ایڈ ویلورم ڈیوٹیز عائد کی گئی ہیں۔” یہ محصولات اشیاء کی قیمت کے تناسب سے اضافی شرح پر لاگو ہوں گی۔
نئے ٹیرف ریٹس زیادہ تر 10 فیصد سے 40 فیصد کے درمیان رکھے گئے ہیں، جیسا کہ جاری کردہ ضمیمہ میں تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔
ایگزیکٹو آرڈر کے نفاذ کے سات دن بعد یہ نئے ٹیرف ریٹس مؤثر ہوں گے، تاہم بعض اشیاء پر لاجسٹک وجوہات کی بنا پر استثنیٰ دیا گیا ہے۔
چند نمایاں ممالک کے ٹیرف ریٹس میں رد و بدل درج ذیل ہے:
- انگولا: 32% سے کم ہو کر 15%
- بنگلہ دیش: 37% سے کم ہو کر 20%
- بوسنیا و ہرزیگووینا: 35% سے 30%
- بوٹسوانا: 37% سے 15%
- برونائی: 24% سے بڑھ کر 25%
- کمبوڈیا: 49% سے کم ہو کر 19%
- کیمیرون: 11% سے 15%
- چاد: 13% سے 15%
- آئیوری کوسٹ: 21% سے 15%
- ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو: 11% سے 15%
- یورپی یونین (زیادہ تر اشیاء): 20% سے 15%
- فاک لینڈ آئی لینڈز: 41% سے 10%
- فجی: 32% سے 15%
- گھانا: 38% سے 15%
- بھارت: 26% سے 25%
- انڈونیشیا: 32% سے 19%
- عراق: 39% سے 35%
- اسرائیل: 17% سے 15%
- جاپان: 24% سے 15%
- اردن: 20% سے 15%
- قازقستان: 27% سے 25%
- لاؤس: 48% سے 40%
- لیسوتھو: 50% سے 15%
- لیبیا: 31% سے 30%
- لیخٹن اسٹائن: 37% سے 15%
- مڈغاسکر: 47% سے 15%
- ملاوی: 17% سے 15%
- ملائیشیا: 24% سے 19%
- ماریشس: 40% سے 15%
- مالدووا: 31% سے 25%
- موزمبیق: 16% سے 15%
- میانمار: 44% سے 40%
- نمیبیا: 21% سے 15%
- ناؤرو: 30% سے 15%
- نائیجیریا: 14% سے 15%
- شمالی مقدونیہ: 33% سے 15%
- پاکستان: 29% سے کم ہو کر 19%
- فلپائن: 17% سے بڑھ کر 19%
- سربیا: 37% سے 35%
- جنوبی کوریا: 30% سے 15%
- سری لنکا: 44% سے 20%
- سوئٹزرلینڈ: 31% سے بڑھ کر 39%
- تائیوان: 32% سے 20%
- تھائی لینڈ: 36% سے 19%
- تیونس: 28% سے 25%
- وانواتو: 22% سے 15%
- ویتنام: 46% سے 20%
- زیمبیا: 17% سے 15%
- زمبابوے: 18% سے 15%
اس اقدام کو عالمی سطح پر امریکہ کی تجارتی پالیسی میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے، جو بین الاقوامی تجارت پر دور رس اثرات ڈال سکتی ہے۔