رفعت وحید

رفعت وحید کی دو غزلوں کا فکری و فنی تجزیہ

پہلی غزل
خون کی حدتوں میں اتری ہے
اک اداسی رگوں میں اتری ہے
کیا خبر ہے کہ دن کہاں بچھڑا
رات کب کھڑکیوں میں اتری ہے
جو مسافت بھی پاؤں سے الجھی
بے جہت راستوں میں اتری ہے
پھر جزیرے نگل گیا ساگر
پھر زمیں پانیوں میں اتری ہے
اب کے رفعت ہماری بینائی
پھیلتے فاصلوں میں اتری ہے

تبصرہ:
رفعت وحید کی یہ غزل ایک لمحۂ خاموشی میں ڈھلی ہوئی صدا ہے، جیسے کائنات کا درد الفاظ میں اُتر آیا ہو۔

اس غزل کا فکری اور فنی تجزیہ  پیش خدمت ہے:
فکری تجزیہ:
یہ غزل وجودیاتی کرب ((existential anguishاور داخلی بے قراری کی ترجمان ہے۔ابتدائی شعر میں خون کی حدت اور اداسی کا رگوں میں اترنا ایک شدید جذباتی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔یہ صرف غم نہیں، بلکہ غم کا جسمانی تجربہ بن جانا ہے۔

ایسا تصور ہمیں جدید اردو غزل میں شاذ ہی ملتا ہے۔یہ شعر ملاحظہ ہو:
؎”کیا خبر ہے کہ دن کہاں بچھڑا
رات کب کھڑکیوں میں اتری ہے”
یہاں وقت ایک جذباتی الجھاؤ کی صورت میں آتا ہے۔ شاعرہ کا داخلی وقت اور خارجی وقت ہم آہنگ نہیں ۔ ایک disorientation ہے، جیسے زمان و مکاں کی گرفت ڈھیلی پڑ چکی ہو۔مثلا:
؎”جو مسافت بھی پاؤں سے الجھی
بے جہت راستوں میں اتری ہے”
یہاں زندگی کی راہوں کا بے سمت ہونا، اور وجود کا الجھ جانا، علامتی انداز میں ظاہر کیا گیا ہے۔”مسافت” اور “راستے”  دونوں علامات ہیں جو وجودی سوالات کو چھیڑتی ہیں۔یہ شعر ملاحظہ ہو:
؎”پھر جزیرے نگل گیا ساگر
 پھر زمیں پانیوں میں اتری ہے”
یہ ایک زبردست ماحولیاتی یا تہذیبی علامت ہو سکتی ہے۔ سمندر کا جزیرہ نگل جانا، اور زمین کا پانی میں اتر جانا
گویا یہ ہستی کا مٹنا ہےیا انفرادی شناخت کا اجتماع میں جذب ہو جانا۔آخری شعر میں
؎ “رفعت ہماری بینائی
 پھیلتے فاصلوں میں اتری ہے”
یہ نہایت معنی خیز ہے۔”رفعت” یہاں محض بلندی نہیں بلکہ نقطۂ نظر، بصیرت، اور ادراک کا استعارہ ہے جو فاصلے جتنا پھیل چکا ہے۔یعنی شعور نے خود کو دوری، جدائی، اور غیر یقینی کی شکل میں ظاہر کیا ہے۔
 
→ مجموعی طور پر یہ غزل ایک گہرے وجودی، نفسیاتی، اور علامتی بیانیے کو پیش کرتی ہے — جہاں وقت، فاصلہ، پانی، جزیرہ، اور خون جیسے عناصر علامت بن کر انسانی کرب کو مجسم کرتے ہیں۔

فنی تجزیہ:
غزل کی بحری ساخت:

یہ غزل” بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع ” میں ” فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن” وزن میں  کہی گئی ہے جو اکثر لطیف جذبات، اداسی، اور متانت کے اظہار کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہے۔

قافیہ و ردیف:
قافیہ: (حدتوں، رگوں، کھڑکیوں، راستوں، پانیوں اور فاصلوں..)
ردیف: “میں اتری ہے”۔یہ ردیف نہایت موثر اور پُراثر ہے، گویا ہر شعر کسی کیفیت کا آہستہ آہستہ اندر اتر جانا بیان کرتا ہے۔
زبان و اسلوب:زبان سادہ مگر علامتوں سے بوجھل ہے۔اسلوب بیان کی سستی نہیں بلکہ وقار رکھتا ہے ، جیسے کوئی ماہر خطاط آہستگی سے قلم چلا رہا ہو۔

تکرارِ صوتی و آہنگ:ہر شعر میں “اتری ہے” کی تکرار غزل میں ایک ماہرانہ صوتی ہم آہنگی پیدا کرتی ہے،جیسے ہر مصرع اپنے اختتام پر ایک ہی دریا میں جا گرتا ہو۔
تشبیہات و استعارات:“خون کی حدت”، “پھیلتے فاصلے”، “بے جہت راستے”، “جزیرے نگلنا”  ان تمام استعارات میں شاعرانہ وجدان اپنے عروج پر ہے۔

رفعت وحید کی یہ غزل جدید اردو غزل کے اس رجحان کی نمائندہ ہے جس میں باطنی کرب، وقت کا دھندلا پن، اور وجود کی بے معنویت شاعری کا مرکزی موضوع بن چکی ہے۔یہ غزل فقط پڑھنے کی نہیں، محسوس کرنے کی چیز ہے  جیسے کوئی خواب ہو جو جاگنے پر بھی ساتھ رہ جائے۔
 
 
دوسری غزل
کوئی منظر سبز اور شاداب آنکھوں میں نہیں
جز خزاں کچھ بھی مری بے خواب آنکھوں میں نہیں
دیکھتی جاتی ہوں اس کو ڈوبتی جاتی ہوں میں
کون یہ کہتا ہے کہ گرداب آنکھوں میں نہیں
کس طرح آخر کٹے گا تیرگی کا یہ سفر
ہاتھ میں سورج نہیں مہتاب آنکھوں میں نہیں
پانی بھل بھل بہہ رہا ہے کس طرح حیران ہوں
گرچہ کوئی جھیل یا تالاب آنکھوں میں نہیں
سب مسافر جا چکے سب عکس پتھر بن گئے
کوئی بھی تو ان مری پایاب آنکھوں میں نہیں
پڑھ رہی ہوں میں کتاب وصل کتنی دیر سے
شکر ہے اب فرقتوں کا باب آنکھوں میں نہیں
جسم رفعت تھک چکا جلتی نگاہیں بجھ گئیں
اب تو کچھ بھی دیکھنے کی تاب آنکھوں میں نہیں

 
رفعت وحید کی یہ غزل خالص احساس کی ایک جھیل ہے ۔ہر شعر آنکھوں کے دریچوں سے دل کے کرب کا  برملا  اظہار کرتا ہے۔اس غزل کافکری و فنی تبصرہ پیش خدمت ہے۔

فکری تجزیہ:
یہ غزل ادراک، تھکن، تنہائی اور بصارت کی بےنوری کا استعارہ ہے۔”سبز اور شاداب منظر”  بمقابلہ “خزاں”، یہاں خزاں ایک علامتی کیفیت ہے جو مایوسی، داخلی پژمردگی اور جذباتی بے رنگی کو ظاہر کرتی ہے۔شاعرہ کے لیے دیدہ و دل کا ہر منظر اب ویران ہے ، گویا دنیا سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔

؏”دیکھتی جاتی ہوں اس کو، ڈوبتی جاتی ہوں میں”
 یہ مصرعہ عشق کی یک طرفہ بے بسی کو نہایت شدید مگر سادہ انداز میں ظاہر کرتا ہے۔گرداب آنکھوں میں نہ ہونا — لیکن ڈوب جانا — یہاں عدم مطابقت اور احساساتی ضد کا اظہار ہے۔

؏”ہاتھ میں سورج نہیں، مہتاب آنکھوں میں نہیں”
 یہ ایک شدید وجودی تاریکی کی طرف اشارہ ہے۔سورج ،  عمل، امیداورمہتاب ، سکون، جمال کی علامت ہےیہاں دونوں کا فقدان گویا ہر سمت اندھیرا اور جمود ہے۔”پانی بھل بھل بہہ رہا ہے…” حیرت کی یہ کیفیت یہ بتاتی ہے کہ حسی ادراک اور منطقی فہم میں فاصلہ آ چکا ہے۔شعور کسی حد تک بے حس ہو گیا ہے۔”سب عکس پتھر بن گئے” یہ ایک شاندار تشبیہ ہے: عکس، جو بصری جمال ہوتا ہے، اب جمود بن چکا ہے۔”پایاب آنکھیں” — یعنی وہ آنکھیں جن کی گہرائی میں کچھ تھا، اب وہ بھی خالی ہے۔آخری شعر میں تھکن، جلتی نگاہیں، اور تابِ نظر کا ختم ہو جانا ، گویا عشق یا زیست کی ریاضت اپنے اختتام پر پہنچ چکی ہے۔یہاں وصال کی کتاب کا پڑھنا اور “فرقتوں کا باب آنکھوں میں نہیں” کہنا ایک عجیب سی ضدی آس کا بیان ہے  جیسے شکست میں بھی فاتح ہونے کی حسرت۔

فنی تجزیہ:
یہ غزل “بحرِ رمل مثمن  محذوف میں ہے”۔اس کا وزن ” فاعِلاتن،فاعِلاتن،فاعِلاتن،فاعِلن” ہے جو کہ جذباتی نرمی، تھکن، اور سوزِ دروں کو ظاہر کرنے کے لیے بہت موزوں بحر ہے۔

قافیہ: شاداب، گرداب، مہتاب، تالاب، پایاب، وغیرہ
ردیف: “آنکھوں میں نہیں” یہ ردیف نگاہ اور نظر کی نفی کو مسلسل دہرا کر ایک داخلی نارسائی کی شکل میں پوری غزل کو لپیٹ میں لیتی ہے۔

اسلوب:یہاں بیان میں ایک طرح کی مسلسل تھکن ہے — جیسے ہر شعر کے بعد ایک ٹھنڈی سانس لی گئی ہو۔الفاظ سادہ مگر تصویری زبان کے حامل ہیں  “بھل بھل پانی”، “جلتی نگاہیں”، “کتابِ وصل” — یہ سب حسی اور علامتی جمالیات کی نمائندگی کرتے ہیں۔

علامتیں:”آنکھیں”، “منظر”، “پانی”، “گرداب”، “سورج”، “مہتاب” ، ہر لفظ اپنی جگہ ایک مکمل جہان رکھتا ہے۔آنکھیں صرف دیکھنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ یادوں، خوابوں، اور شکستوں کا آئینہ ہیں۔

رفعت وحید کی دونوں غزلیں نسوانی شعور، جدید حسّیت اور وجودی کشمکش کی بہترین مثالیں ہیں۔جہاں پہلی غزل میں کائناتی اداسی ہے، وہاں دوسری میں ذاتی تھکن کا رزمیہ ہے۔یہ غزلیں صرف احساسات نہیں، شعور کی تہوں سے ابھری ہوئی غزلیں ہیں۔ان میں لفظ صرف لفظ نہیں، ایک زخم زدہ منظرنامہ ہے ، جسے شاعرہ نے خاموش آنکھوں سے دیکھا اور کرب کے کاغذ پر لکھ دیا۔

پاکستان Previous post پاکستان اور ایران کا دوطرفہ دفاعی تعاون بڑھانے اور علاقائی امن و استحکام کے فروغ کے عزم کا اعادہ
ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈز Next post ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈز میں شرکت نہ کرنے کا پاکستان کرکٹ بورڈ کا فیصلہ