
کشمیری مظلوم خواتین کی مونس و غمخوار ۔۔ محترمہ انجم زمرد حبیب
کہاجاتاہے کہ بیرونی جارحیت اپنے ساتھ زمینی تباہی تو لاتی ہی ہے لیکن یہ اس قوم یا معاشرے کے افراد کو بھی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی طورپر مفلوج کرکے رکھ دیتی ہیں۔ یہ جنگیں انسانی ماحول، سماج، معاشرت اور تہذیب وتمدن کو تباہی اور بربادی کا تحفہ دیتی ہیں۔ یہ جنگیں ہلاکتوں کے انبار ہی نہیں لگاتیں بلکہ انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو بھی پامال کرکے رکھ دیتی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان جنگوں میں سب سے زیادہ متاثر خواتین ہی ہوتی ہیں اور لڑائی جب چھڑ جاتی ہے تو اس میں سب سے عذاب عورت کو جھیلنے پڑتے ہیں۔ بیرونی جارحیت کے اثرات کی حقیقت کو کشمیری خواتین سے زیادہ کون جان سکتاہے کہ وہ گذشتہ 78 سالوں سے بھارتی جارحیت کا سب سے بڑا شکار ہی رہی ہیں۔ بھارت نے اپنی آٹھ لاکھ قابض فوج کے ساتھ دنیا کی کھلی آنکھوں کے سامنے کشمیریوں کو بزورطاقت گذشتہ 78 سالوں سے یرغمال بناکر رکھا ہوا ہے اور کشمیریوں پر ظلم وستم، جلاؤ گھیراؤ اور مسلسل محاصرہ جاری ہے۔ کشمیریوں کو ہراساں کرنا ان کی جائیدادوں پر قبضہ کرنا اور انہیں جان سے بھی مارنے سے دریغ نہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت کی اس قبضہ گیری کے دوران کشمیری خواتین خاص طور بدترین سیاسی اور سماجی دباؤ کا نشانہ بنیں اور اس دوران وہ مکمل طور پر غیرمحفوظ اور بھارتی قابض فوجیوں کے رحم وکرم پر رہی ہیں۔ ان مایوس کن حالات میں کہ جہاں کشمیری خواتین کا کوئی پرسان حال نہ تھا تو انہیں محترمہ انجم زمرد حبیب کی صورت میں ایک امید کی کرن نظر آئی اور انہیں اپنے لیے ایک مونس وغمخوار شخصیت دکھائی دی۔ وہ بھارت کے کشمیر پر جبری قبضے کے خلاف احتجاج کرنے اور اپنی مظلوم کشمیری خواتین پر ہونے والے ظلم وستم کے خلاف میدان میں اتریں۔ وہ کشمیری خواتین کے لیے ایک مہربان اور پرایثار ماں، بہن اور بیٹی کے روپ میں سامنے آئیں جو اپنی قوم کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لیے ایک ہمدرد دل اور محبت و شفقت کاجذبہ رکھتی ہیں۔
محترمہ انجم زمرد حبیب تعلیم سے فراغت کے بعد درس وتدریس سے منسلک ہوئیں اور اس دوران انہوں نے وکالت کا امتحان بھی پاس کرلیا۔ انہوں نے اپنے گرد کشمیری خواتین کو کسمپرسی کی حالت میں دیکھا تو انہوں نے ان خواتین کی سہولت اور فلاح کے لیے ایک لائحہ عمل طے کیا۔ انہوں نے 1985 ء میں سیدہ آسیہ اندرابی کے ساتھ مل کر تحریک حق خودارادیت کے لیے سرگرم کردا ر ادا کرنا شروع کیا اور وادی کشمیر میں کشمیری خواتین کے لیے ہر لمحہ اترتی موت نے انہیں ایک مربوط پروگرام شروع کرنے پر مجبور کر دیا۔ ان کی تحریک پر دو سو سے تین سو خواتین ان کے ساتھ جمع ہو گئیں جنہیں ساتھ ملا کر انہوں نے خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے ایک تنظیم قائم کی جس نے آگے چل کر ان مظلوم خواتین کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دیں اور اس نے ایک مضبوط تحریک کی صورت میں اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔
23 فروری 1991ء کے ضلع کپواڑہ کے دو گاؤں کونان اور پوشپورہ میں بھارت کی راجپوتانہ رائفلز کے سپاہیوں کی طرف سے تمام عورتوں، بچیوں حتی ٰکہ بوڑھی عورتوں کو بھی اجتماعی آبروریزی کا نشانہ بنانے کے اندوہناک واقعے نے محترمہ زمرد حبیب کو جھنجوڑ کے رکھ دیا اور وہ ان مظلوم خواتین کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنے میدان عمل میں نکلیں اور ان کے لیے انصاف کے حصول کے لیے نہ صرف ریاستی بلکہ بھارتی ایوانوں کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا گو کہ ان کی آواز صدابصحرا ثابت ہوئی لیکن ان کی جدوجہد نے ایک ارتعاش ضرور پیدا کر دیا تھا۔
1993ء میں جب متحدہ حریت کانفرنس وجود میں آئی تو وہ اس کی واحد خاتون رکن تھیں جو اس میں شامل ہوکر اپنی قوم کے لیے حق خودارادیت کے حصول کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی منظم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہوئیں۔ محترمہ انجم زمرد حبیب نے نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی جا کر بھارتی جمہوریت کے بھیانک چہرے کو بےنقاب کرنے اور اس میں کشمیری عوام خاص طور پر خواتین کے خلاف ہونے والے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں سے نہایت مؤثر انداز میں دنیا کو آگاہ کیا۔ وہ کشمیری خواتین کی فلاح و بہبود اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم ہونے کی وجہ سے بھارتی خفیہ اداروں کی نگرانی میں تھیں۔ 6 فروری 2003 ء کو وہ پاکستان میں ایک سیمینار میں شرکت کے لیے ویزے کی درخواست دائر کرنے کے بعد نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن سے نکل رہی تھیں تو انہیں انسداد دہشتگردی کے قانون کے تحت گرفتار کر کے ان کی سرگرمیوں کو مفلوج کر دیا گیا۔ انہیں 15 مقدمات میں ملوٹ کیا گیا اور انہیں اذیت پہنچانے کے لیے ہفتے کا ایک دن چھوڑ کر ہر دن عدالت کے سامنے پیش کیاجاتا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری۔
محترمہ انجم زمرد حبیب نہ تو دہشتگرد تھیں اور نہ ہی انہوں نے ایسا کوئی بھیانک جرم کیا تھا سوائے اس کے کہ وہ اپنے وطن میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر احتجاج اور اپنی قوم کے لیے حق خودارادیت کے لیے جدوجہد کررہی تھیں لیکن ان تمام حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے انہیں پانچ سال کے لیے پابند سلاسل کر دیا گیا۔ نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑجیل میں قید و بند کے دوران وہاں انتہائی روح فرسا مناظر نے انہیں جنجھوڑ کے رکھ دیا وہاں وہ ایک دن نہیں ایک مہینہ نہیں بلکہ پورے پانچ سال تک باہر کی دنیا سے کٹ کر رہیں جس نے ان کے قلب و ذہن پر انتہائی گہرے اثرات چھوڑے۔ اس قید نے ان کو ذہنی طور پر تبدیل کرکے رکھ دیا انہوں نے مایوسی، کسمپرسی اور عقوبت کے جو دن وہاں گزارے کہ جہاں باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکتا تھا اورایک قیدی کے اوپر اپنی آنکھوں دیکھے ٹوٹنے والے عذاب اور روح فرسا واقعات کو انہوں نے ایک کتاب کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے اپنی اس کتاب کا نام ”قیدی نمبر 100” ”Prisoner No 100″ رکھا جو اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جس میں کسی خاتون نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جن سسکتی ہوئی انسانیت کی آہوں اور بلندہوتی دلدوز چیخوں کو اپنے کانوں سے سنا اور اپنی آنکھوں سے اس اذیت ناک صورتحال کو دیکھا، انہیں دنیا کے سامنے آشکار کر دیا جن کے بارے میں وہ سوچ کے بھی لرز کے رہ جاتیں اور وہ یہ خواہش اور تمنا کرتیں کہ کسی اور کو اس دردناک صورتحال سے نہ گزرنا پڑے۔ یہ کتاب ایک عام کشمیری کی زندگی پر سخت ترین ظالمانہ کالے قوانین کے ظالمانہ اثرات کا عمیق مطالعہ ہے اور یہ ایک ایسی بہادر خاتون کی غیر معمولی زندگی کے تجربات کا نچوڑ بھی ہے۔
محترمہ انجم زمرد حبیب سیاست سے کوسوں دور رہتی ہیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ سیاست ا نسان کو چالاک اور خودغرض بناکر منفی سوچ اور لاتعلقی پیدا کرتی ہے۔ انہیں صرف اور صرف اپنی قوم کے نوجوانوں اور خواتین کی فکر لاحق رہتی ہے جس کے لیے وہ ہر وقت کوشاں رہتی ہیں۔ گرفتاری سے پہلے انہوں کشمیری خواتین کی۔ فلاح و بہبود کے لیے انہوں نے ایک تنظیم قائم کی لیکن قید کے دوران اس پر کچھ اور خواتین نے قبضہ کرلیا لیکن وہ دلبرداشتہ نہ ہوئیں اور قید سے باہر آکر انہوں قائد کشمیر سید علی شاہ گیلانی کی ہدایت پر ایک نئی تنظیم ”کشمیر تحریک خواتین” قائم کی جس کی نمائندگی پاکستان و آزادکشمیر میں محترمہ شمیم شال انتہائی جرأت و استقامت سے کر رہی ہیں۔ اس تنظیم نے انتہائی جانفشانی سے پورے کشمیر سے ان قیدی خواتین اور ان کے خاندانوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں اور ان کی فلاح وبہبود کے لیے انتھک کوششیں کیں۔ محترمہ انجم زمردحبیب کو قید کے دوران حریت قیادت کی بےرخی اور بے اعتنائی کا بھی سامنا کرنا پڑا جنہیں صرف ایک خاتون ہونے کی وجہ سے نظرانداز کیا گیا لیکن عزم و حوصلے سے انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔بان تمام بانوں کے باوجود محترمہ زمرد انجم حبیب اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے غافل نہ رہیں اور ا نہیں کشمیر کی قدرتی خوبصورتی اور ا س میں ایک پرآشوب زندگی کے بارے میں رنجیدہ رہتی ہیں جہاں پہ امن و امان اور آرام و آسائش ایک شجر ممنوعہ بنا دیے گئے ہیں۔ وہ بھارتی جارحیت نے جس نے کشمیری نوجوانوں کو نہ صرف جسمانی طور پر توڑ ڈالا اور ان کی روحوں اور نفسیات کو بھی کچل کے رکھ دیا ہے اس میں وہ ان نوجوانوں کے بارے میں بھی فکرمند ہیں جو صبح کے وقت گھر سے باہر کسی کام کے لیے نکلتے ہیں لیکن دوبارہ انہیں زندہ سلامت دیکھنے کی کوئی ضمانت نہیں اور کشمیری خواتین اب شادیوں بیاہ کے گیت اپنے ان غیرشادی شدہ جوان، بیٹوں اور بھائیوں کی میتوں پر گاتی ہیں۔
محترمہ انجم زمرد حبیب کی کشمیری خواتین کی فلاح وبہبود کی جدوجہد جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک مظلوم کشمیری خواتین کے اوپر ہونے والے جبر و تشدد کاخاتمہ نہیں ہوجاتا اور ان کے خلاف ہونے والی سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ازالہ کر کے اس کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا۔ مظلوم کشمیری خواتین ان مصیبت اور مشکلات کے ادوار میں ان کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ان کے حقوق کے لیے بھارتی سامراج سے ٹکرانے اوراس کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر ہمیشہ ممنون واحسان مند رہیں گی!!!
بقول رشید حسرت:
؎ تھی کھوج مجھے تم سا کوئی ہو میسر!!!
واللہ نہیں کوئی، نہیں کوئی نہیں ہے!!!
اے سہمی کسک! تونے مرا ساتھ دیاہے!!!
ہمدرد مری توہے، توہی دل کی مکیں ہے!!!