
اکادمی ادبیات پاکستان کا عشرہ رحمۃ للعالمین ﷺ کے سلسلے میں سیمینار: معاصر ادب میں سیرت نگاری کے رجحانات و اسالیب پر اظہارِ خیال
اسلام آباد، یورپ ٹوڈے: اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے زیر اہتمام ۴ ستمبر ۲۰۲۵ء کو سیمینار بسلسلہ عشرہ رحمۃ للعالمین ﷺبعنوان “معاصر ادب میں سیرت نگاری: رجحانات و اسالیب” منعقد ہوا،جس میں راولپنڈی اسلام آباد کے علاوہ دیگر شہرں سے بھی نمایاں ادبی شخصیات نے شرکت کی۔تقریب کی صدارت چیئرمین رحمۃ للعالمین اتھارٹی جناب خورشید ندیم نے کی۔مہمانان خصوصی میں جناب عکسی مفتی ، ڈاکٹر محمد طفیل احمد اور جناب جبار مرزاشامل تھے جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر شاذیہ اکبر نے انجام دیے۔
جناب خورشید ندیم نے اپنے صدارتی خطاب میں سیرت نگاری کی ابتدا سے
لے کر دورِجدید تک سیرت پر لکھی گئیں مختلف کتب کا تذکرہ کیا ۔انھوں نے کہا کہ سیرت نگاری میں انسان جزوی پرایک بہت بڑی شخصیت کو ان ﷺکی تمام خوبیوں سمیت اپنی گرفت میں لانے کی سعی کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سیرت تہذیبی ،ادبی اور تنقیدی پس منظر کے تحت بھی لکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں سیرت النبی ﷺکی گواہی دی ہے۔جناب خورشید ندیم نے جناب عکسی مفتی اور جناب جبار مرزا کی سیرت النبی ﷺپر تحریر کردہ کتابوں اور ڈاکٹر محمدطفیل کےکام کابھی حوالہ دیا اور انھیں موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق بے حد اہمیت کا حامل قرار دیا۔
جناب عکسی مفتی نے “ سیرت النبی ﷺ: لوک ادب اور ثقافت کے تناظر میں” کے موضوع پر گفتگو کی اور کہا کہ حضور ﷺکی حقیقی شخصیت کو سمجھنے کے دو رخ ہیں ایک زمینی اور دوسرا آسمانی یا روحانی میں نے حضور ﷺکو زمینی رخ سے پہچانا اور انھیں نعتوں، قوالیوں، صوفیا کے کلام ، ماہیوں، ہیر رانجھااور مختلف زبانوں کے ٹپوں سے جاناہے۔ انھوں نے کہا کہ لیلتہ القدر میں جس رات حضور پاک ﷺنے رب سے ملاقات کی دراصل اسی دن انسانیت کی تکمیل ہوئی۔جس انسان کو جنت سے نکالا گیا تھا اسی رات پھر سے اس انسان کو عظمت نصیب ہوئی۔
ڈاکٹر محمد طفیل نے”ادب اور سوشل میڈیا: سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں”پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زمانۂ جاہلیت میں عربی زبان ایک عام زبان تھی لیکن محمد ﷺ کےعرب کی سر زمین پر تشریف لانے سے قرآن مجید عربی زبان کا اہم ترین جزو بن گیا۔قرانی آیات کے علاوہ احادیث مبارکہ ،آپ ﷺ کے ارشادات،اسوۂ حسنہ غرض بنی نوع انسان کی فلاح بلکہ تمام عالمِ انسانیت کے لیے قرآن مجید ایک مکمل ضابطہ حیات بن کر نازل کیا گیا۔یہ سب محمد ﷺ کی بعثت کی وجہ سے ہوا۔ڈاکٹر طفیل احمد نے سوشل میڈیا کے حوالے سے کہا کہ ہمارے مفکرین کو چاہیے کہ وہ نئی نسل کو سوشل میڈیا کا مثبت اور تعمیری رخ دکھائیں تاکہ ہماری نسل گمراہی
کے بجائے ترقی کی طرف سفر کرے۔
جناب جبار مرزا نے”دفاعِ وطن، ادب اور سیرت النبی ﷺ” کو موضوع
بناتے ہوئے حضور ﷺ کی سیرت، پاکستان کی ریاست مدینہ سے مماثلت اور قائد اعظم کے فرمودات کی روشنی میں گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ محمد ﷺ کی سیرت ہمیں نہ صرف روحانی تربیت دیتی ہے بلکہ ایک منظم،خود دار اور باوقار ریاست کے قیام کا نظریہ بھی دیتی ہے۔انھوں نے کہا کہ دنیا میں ۵۷مسلم ممالک ہیں لیکن پھر بھی وہ دوسروں کے دست نگر ہیں۔آج کے عالمی منظر نامے میں سیرت محمد ﷺ کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
صدر نشین اکادمی پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کہا کہ آج کی یہ محفل اس لیے یاد رہے گی کہ آج اس بابرکت موقعے پر بہت بڑی شخصیات موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صدرِمحفل اور تمام مقررین نے حاضرین کے دلوں میں سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کے حوالے سے جو شوق اور شعور پیدا کیا، وہ یقیناً ایک مثبت فکری اور ادبی پیش رفت ہے۔ انھوں نے آخر میں صاحبِ صدارت،مقررین اور حاضرین کی شرکت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
مجموعی طور پر یہ فکری و ادبی نشست نہ صرف سیرتِ رسول ﷺ کے فہم میں وسعت کا باعث بنی بلکہ اس نے معاصر ذہنوں کو اس عظیم الشان ورثے سے وابستہ رہنے کی ایک نئی جہت بھی عطا کی۔