
لندن احتجاج کے لیے برطانیہ میں 1,000 پولیس اہلکار تعینات
لندن، یورپ ٹوڈے: برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے وسطی علاقے میں ہفتہ کے روز ہزاروں افراد جمع ہوئے جہاں دائیں بازو کے انتہا پسند کارکن ٹومی رابنسن نے ایک بڑی ریلی کی قیادت کی، جس کے جواب میں انسدادِ نسل پرستی مہم کے تحت مظاہرین نے جوابی مارچ کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق میٹروپولیٹن پولیس نے بتایا کہ تقریباً ایک ہزار پولیس اہلکاروں کو ان مظاہروں پر تعینات کیا گیا جبکہ دونوں گروہوں کے درمیان ’’جراثیم سے پاک علاقہ‘‘ (Sterile Area) قائم کرنے کے لیے رکاوٹیں لگائی گئیں۔
ٹومی رابنسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر تحریر کیا: “آج لندن اپنے سب سے اہم حق — آزادی اظہار — کے دفاع میں مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے۔”
واٹر لو برج کے قریب بڑے ہجوم نے جمع ہوکر ’یونائٹ دی کنگڈم‘ مارچ کا آغاز کیا، جو بعد ازاں وائٹ ہال کی جانب بڑھا۔ سڑکوں پر برطانوی یونین جیک، سینٹ جارج کے کراس، اسکاٹش سلٹائر اور ویلش پرچموں کی بڑی تعداد نظر آئی۔
پولیس نے بتایا کہ اس موقع پر 500 اضافی اہلکار دیگر شہروں سے طلب کیے گئے، جن میں لیسٹر شائر، ناٹنگھم شائر اور ڈیوون و کارن وال کے افسران شامل تھے۔
مظاہرین کے جھنڈوں پر مختلف نعرے درج تھے جن میں ’’اسٹاپ دی بوٹس‘‘، ’’سینڈ دیم ہوم‘‘ اور ’’یونائٹ دی کنگڈم‘‘ شامل تھے، جبکہ ہجوم میں اینٹی ٹرانسجینڈر کارکن بھی موجود تھے۔ ایک شخص نے ایک بڑی لکڑی کی صلیب اٹھا رکھی تھی جس پر ’’RIP چارلی کرک‘‘ لکھا ہوا تھا — وہ امریکی دائیں بازو کے کارکن تھے جو بدھ کے روز ایک یونیورسٹی میں تقریر کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیے گئے۔
دوسری جانب تقریباً 500 افراد رسل اسکوائر کے قریب ’مارچ اگینسٹ فاشزم‘ میں شریک ہوئے، جو تنظیم اسٹینڈ اپ ٹو ریسزم (SUTR) کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔ اس مظاہرے میں شریک افراد نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر “ویمن اگینسٹ دی فار رائٹ”، “اپوز ٹومی رابنسن” اور “ریفیوجیز ویلکم” جیسے نعرے درج تھے۔
یہ مظاہرین بھی پارلیمنٹ اسکوائر کی طرف مارچ کریں گے، جو یونائٹ دی کنگڈم ریلی سے محض چند سو میٹر کے فاصلے پر ہے۔