
کَیس لاہور میں ’’ایٹمی ٹیکنالوجی کے پُرامن استعمالات‘‘ پر گول میز اجلاس، ماہرین کا صحت، زراعت اور پائیدار ترقی میں ایٹمی توانائی کے کردار پر زور
لاہور، یورپ ٹوڈے: سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (کَیس)، لاہور نے ’’ایٹمی ٹیکنالوجی کے پُرامن استعمالات‘‘ کے عنوان سے ایک گول میز اجلاس کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں ماہرین، اساتذہ، طلبہ اور دانشور شریک ہوئے۔ کَیس ایک خود مختار تھنک ٹینک ہے جو قومی سلامتی کے وسیع تر تناظر میں علمی و تحقیقی نشستوں کا اہتمام کرتا ہے۔
مقررِ خصوصی ڈاکٹر انصر پرویز، مشیر نیشنل کمانڈ اتھارٹی، نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایٹمی توانائی کی مزاحمت اس کے خطرات کے باعث نہیں بلکہ رابطے کے دیرینہ خلأ کی وجہ سے سامنے آتی ہے۔ انہوں نے اس غلط تاثر کی نفی کی کہ ایٹمی ٹیکنالوجی ناقابلِ قابو خطرات پیدا کرتی ہے اور وضاحت کی کہ شعاعی اثرات سائنسی طور پر قابلِ کنٹرول ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ٹیکنالوجی علاجِ امراض اور زراعت کے شعبے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن جیسی ادارہ جاتی کوششیں قابلِ تحسین ہیں، جنہوں نے پُرامن ایٹمی استعمالات میں پیش رفت کی قیادت کی ہے۔ عالمی ایٹمی نظام پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان اس ضمن میں ہمیشہ تعمیری کردار ادا کرتا رہا ہے اور سی ٹی بی ٹی و این پی ٹی جیسے معاہدوں پر اپنا مؤقف شفاف انداز میں پیش کرتا آیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان ایک منصفانہ اور غیر امتیازی فریم ورک کا حامی ہے جو اس کے جائز سلامتی خدشات کا تحفظ کرے اور عوام کی فلاح کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی کے پُرامن استعمالات کو ممکن بنائے۔
صدر کَیس لاہور، ائر مارشل (ر) عاصم سلیمان نے اختتامی کلمات میں کہا کہ ایٹمی سائنس کو صرف دفاعی صلاحیت کے تناظر میں دیکھنا درست نہیں بلکہ اسے انسانی ترقی کے ایک ذریعہ کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔ انہوں نے صحت، زراعت اور صنعت کے شعبوں میں ایٹمی توانائی کے کردار اور صاف توانائی کی فراہمی اور پائیدار ترقی کے فروغ میں اس کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ علم، جدت اور ذمہ دارانہ گورننس ہی اعتماد کی بنیاد ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے پُرامن استعمال پر قومی سطح پر گفتگو کو وسعت دے اور اس کے سماجی و معاشی ثمرات سے آئندہ نسلوں کو فیضیاب کرے۔
شرکاء نے سوال و جواب کے سیشن میں ایٹمی ٹیکنالوجی کی طبعیات و میکنزم، اس کے پُرامن استعمالات اور بین الاقوامی ذمہ داریوں و معاہدوں پر مبنی عالمی نظام پر بھرپور تبادلہ خیال کیا۔