
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ پیش، اسرائیلی وزیر اعظم نتنیاہو کی حمایت، حماس کے ردعمل کا انتظار
واشنگٹن، یورپ ٹوڈے: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز ایک جامع غزہ امن منصوبہ پیش کیا اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتنیاہو کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ حماس بھی اس تجویز کو قبول کرے گی۔
صدر ٹرمپ نے نتنیاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا: “میں وزیر اعظم نتنیاہو کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس منصوبے پر اتفاق کیا اور اس یقین کا اظہار کیا کہ اگر ہم مل کر کام کریں تو برسوں سے جاری موت اور تباہی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہم امن کا معاہدہ حاصل کر لیں گے، اور اگر حماس نے اسے مسترد کیا تو وہ تنہا رہ جائیں گے، کیونکہ باقی سب نے اسے قبول کر لیا ہے۔”
ٹرمپ کے بقول یہ منصوبہ "تقریباً عالمی سطح پر منظور شدہ” ہے، جس میں فوری جنگ بندی، مرحلہ وار اسرائیلی انخلا اور حماس کی غیر مسلح کاری شامل ہے۔ منصوبے میں ایک عارضی بین الاقوامی فورس کی تعیناتی اور غزہ کے انتظام کے لیے عبوری اتھارٹی کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، جس کی نگرانی براہ راست صدر ٹرمپ کریں گے۔
منصوبے کے اہم نکات میں اسرائیلی فوج کے انخلا کو حماس کے زیرِحراست یرغمالیوں کی رہائی سے منسلک کیا گیا ہے، جبکہ حماس کے ان جنگجوؤں کو عام معافی دینے کی بات کی گئی ہے جو پرامن بقائے باہمی پر آمادہ ہوں۔ اس کے علاوہ منصوبے میں انسانی ہمدردی کی امداد اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے سرحدوں کے کھلنے کی ضمانت بھی دی گئی ہے تاکہ فلسطینی اپنے وطن میں رہیں اور تعمیرِ نو میں حصہ لیں۔
تاہم حماس کے عہدیدار محمود مرداوی نے الجزیرہ مباشر سے گفتگو میں کہا کہ انہیں اب تک تحریری امن منصوبہ موصول نہیں ہوا۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ یہ تجویز عرب رہنماؤں کو بھیجی جا چکی ہے اور بیشتر نے اس کی حمایت کی ہے۔ “سب پہلی بار کسی خاص موقع کے لیے تیار ہیں،” انہوں نے اتوار کو سوشل میڈیا پر لکھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم کی حمایت کے باوجود، ان کے حالیہ اقوام متحدہ کے خطاب نے شکوک پیدا کر دیے ہیں، جہاں انہوں نے حماس کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور فلسطینی ریاست کے امکان کو مسترد کر دیا، جسے کئی مغربی ممالک تسلیم کر چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی حالیہ دنوں میں اسرائیل پر برہمی کا اظہار کیا ہے، خصوصاً قطر میں ایک حملے کے بعد، اور نتنیاہو کو مغربی کنارے کے انضمام سے باز رہنے کی وارننگ دی ہے۔
منصوبے میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے، جن میں عمر قید کی سزا بھگتنے والے بھی شامل ہیں، اس کے بدلے یرغمالیوں کو چھوڑنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ تاہم جنگ کے بعد غزہ میں فلسطینی اتھارٹی اور بین الاقوامی فورسز کے کردار پر اختلافات موجود ہیں۔
دوسری جانب پیر کو اسرائیلی فضائی حملوں میں خان یونس میں کم از کم چار افراد جاں بحق ہوئے۔ اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ نے ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ مخالفت کے باوجود اس منصوبے کو آگے بڑھائیں۔
غزہ کے مقامی شہریوں نے اس منصوبے پر بداعتمادی کا اظہار کیا۔ ایک رہائشی محمد ابو ربیع نے کہا: “میں ٹرمپ سے کچھ امید نہیں رکھتا، کیونکہ وہ نتنیاہو کا ساتھ دیتے ہیں جو غزہ کی تباہی اور عوام کی بے دخلی چاہتے ہیں۔”
یہ تنازع اب اپنے تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہے، جس کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے سے ہوا تھا جس میں اسرائیل میں 1,219 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، جو اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ اعداد و شمار ہیں، اب تک 66,055 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
اگرچہ صدر ٹرمپ نے پرامیدی ظاہر کی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ امن کی راہ ابھی بھی مشکلات سے بھری ہوئی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ انسٹی ٹیوٹ کے ناتان ساکس نے کہا: “نتنیاہو کی ترجیح جنگ جاری رکھنا اور حماس کو شکست دینا ہے، تاہم یہ ناممکن نہیں کہ ٹرمپ انہیں قائل کر سکیں۔”