
مجھےتسلیم کرکے کیا ہو گا
مجھے اب یاد نہیں کہ میری عمر کتنی ہے۔ دنوں کے نام مٹ چکے ہیں۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ میں کبھی غزہ کا بچہ تھا، اُن دیواروں کے بیچ کھیلتا تھا جو اب مٹی کے ڈھیر میں بدل چکی ہیں۔ آج میں ایک اجنبی ملک کے اسپتال کے بستر پر لیٹا ہوں، میرے بازوؤں پر پٹیاں ہیں جہاں طاقت ہونی چاہیے تھی۔ کھڑکی کے اُس پار کوئی گھر نہیں، کوئی آسمان نہیں جو میرا ہو۔ وارڈ کے آخری کونے میں رکھا ٹیلی ویژن ہی میرا واحد ساتھی ہے۔ جب ڈاکٹر خاموش ہوجاتے ہیں تو اُس کی آواز میرے درد سے بھی زیادہ بلند ہوجاتی ہے۔ اس پر نیویارک میں بیٹھے دنیا کے حکمران دکھائی دے رہے ہیں ، ایک بڑے ہال میں جسے وہ اقوامِ متحدہ کہتے ہیں۔ وہ چمکدار الفاظ بولتے ہیں جیسے الفاظ بچپن کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہوں۔
کہتے ہیں کبھی اقوامِ متحدہ ایک ایسی چھت تھی جس کے نیچے جھگڑے ختم ہوتے اور امن کی صبح جنم لیتی۔ مگر میرے لئے یہ صرف ایک ایسی جگہ ہے جہاں تقریریں ہوتی ہیں اور ہم خون میں نہاتے ہیں۔ میں نے انہیں فلسطین کا ذکر کرتے سنا، غزہ کا، اور ’’اعتراف اور تسلیم‘‘ کا، گویا اُن کی شاندار اسمبلی میں ہمیں ایک کرسی دے دینے سے ہمارے زخم بھر جائیں گے۔ وہ وقار کی بات کرتے ہیں، مگر میں سوچتا ہوں کیا وقار میرے والد کو ملبے سے واپس لا سکتا ہے؟ کیا وقار میری بہن کے ننھے ہاتھ زمین سے چھین سکتا ہے؟
غزہ میں، بموں سے پہلے، ہمارے پاس جو بھی تھا وہ بہت کم تھا، مگر زندگی تھی۔ میری ماں ہماری مٹی کی دراڑوں میں اسٹرابیری اگاتی تھی، میرا بھائی سمندر کے کنارے پرندوں کے پیچھے دوڑتا تھا، اور میں خواب دیکھتا تھا کہ ایک دن استاد بنوں گا۔ پھر آسمان آگ اُگلنے لگا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے اڑتیس ہزار سے زیادہ ختم ہو گئے۔ وہ ہمیں اعداد و شمار کہتے ہیں۔ وہ اعداد جو اسکرین پر بہتے ہیں جبکہ میں آہستہ آہستہ نام لیتا ہوں؛ میرا چچا محمود، میری کزن ہدیٰ، میرا وہ ہمسایہ جو مجھے مالٹے دیا کرتا تھا۔ یہ محض اعداد نہیں۔ وہ میرا جہان تھے۔
میں سوٹ پہنے مردوں کو دیکھتا ہوں، وہ یرغمالیوں پر بحث کرتے ہیں، قراردادوں پر، ویٹو پر۔ مگر وہ میری بھوک پر بحث نہیں کرتے۔ وہ اُس پیاس پر بات نہیں کرتے جو میرے گلے کو جلا گئی یہاں تک کہ پانی نمک اور خون جیسا لگنے لگا۔ وہ اُس دوا پر نہیں بولتے جو کبھی نہ پہنچی اور میرے زخم سڑنے لگے۔ وہ تاریخ، قانون، اور جواز پر بولتے ہیں، جبکہ میرے دوست کفن کے بغیر مٹی تلے دفنائے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں فلسطین ایک "نان ممبر آبزرور” ہے، جیسے یہ الفاظ اُن بچوں کی چیخوں سے زیادہ معنی رکھتے ہوں جو دھوئیں میں ننگے پاؤں بھاگتے ہیں۔
ایک رات میں نے ٹیلی ویژن پر سنا کہ اٹھارہ اپریل کو پندرہ میں سے بارہ ممالک نے ہمارے حق میں ہاتھ اٹھایا۔ مگر ایک ہاتھ—امریکہ کا—ایسا بھاری گرا کہ سب کو خاموش کر گیا۔ میں طاقت کو نہیں سمجھتا، میں بہت چھوٹا ہوں۔ مگر میں خاموشی کو جانتا ہوں۔ یہ وہی خاموشی ہے جیسے گرنے والے مکان کے اندھیرے میں لیٹے رہنا اور انتظار کرنا کہ کوئی آئے… اور کوئی نہ آئے۔
اب وہ غزہ کو ’’ناقابلِ رہائش‘‘ کہتے ہیں۔ میں اس لفظ کو نہیں جانتا۔ مگر جانتا ہوں کہ میری گلی میں اب کوئی دروازے نہیں، صرف ٹوٹی ہوئی اینٹیں ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ میرا اسکول جہاں میں نے حروف لکھنے سیکھے تھے، اب ایک پناہ گاہ ہے جہاں شیر خوار بھی بھوک سے بلک رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ میرے دادا کا زیتون کا درخت، جو مجھ سے بھی پرانا تھا، اب جڑوں سمیت اکھاڑ دیا گیا ہے، جل چکا ہے، اس کی جڑیں مُردوں کی انگلیوں کی طرح مڑ چکی ہیں۔
میں سیاست نہیں سمجھتا، مگر قحط کو سمجھتا ہوں۔ میرا پیٹ یہاں بھی مڑتا ہے، اس اجنبی بستر پر، کیونکہ میرا دل اب بھی غزہ میں ہے۔ میں نقصان کو سمجھتا ہوں: وہ اسٹرابیری کے کھیت جنہیں میری ماں محبت سے سنبھالتی تھی، اب راکھ ہیں—اور وہ بھی۔ وہ کہتے ہیں دنیا نے آخرکار ہمارا اعتراف کر لیا، ہمیں مان لیا، ہمیں تسلیم کر لیا کہ ہم ریاست کے قابل ہیں۔ مگر کیا یہ اعتراف میری ماں کی پیشانی کو آخری بار چوم سکتا ہے؟ کیا یہ میرے بھائی کی خالی کرسی کو رات کے اندھیروں سے مٹا سکتا ہے؟
میں ان کی تقریریں سنتا ہوں۔ بہت حسین لگتی ہیں۔ وہ انسانیت کی بات کرتے ہیں، حقوق کی، امن کی۔ مگر جب اسکرین بجھ جاتی ہے تو صرف خاموشی بچتی ہے۔ وہی خاموشی جس نے غزہ کو جلتے دیکھا۔ کہتے ہیں اعتراف "دیر سے ہی سہی” بہتر ہے۔ مگر میرے لیے یہ قبر پر رکھے گئے پھولوں جیسا ہے۔ شائد نیک نیتی ہو، مگر جسے دفنایا جا چکا ہو، اُس کے لئے بہت دیر ہو چکی ہے۔
میں صرف ایک بچہ ہوں۔ میں نہ تخت مانگتا ہوں نہ عہدے۔ میں صرف وہ روٹی مانگتا ہوں جس میں راکھ کا ذائقہ نہ ہو۔ میں صرف وہ پانی چاہتا ہوں جو میرے ہونٹوں کو زہر نہ کرے۔ میں کتابیں چاہتا ہوں، ایک اسکول، ایک صبح جو بمباری کی آواز سے آزاد ہو۔ میں چاہتا ہوں جب وہ فلسطین کا ذکر کریں تو نیویارک کے ہال نہیں بلکہ غزہ کے کھنڈرات میں بکھرے کھلونوں کو یاد کریں۔
اگر اقوامِ متحدہ واقعی قوموں کا گھر ہے، تو اُسے جان لینا چاہیے کہ غزہ صرف ایک سوال نہیں۔ غزہ میرا گھر ہے۔ غزہ میری فیملی کی قبر ہے۔ غزہ زمین کا زخم ہے۔ وہ اپنی قراردادوں میں فلسطین کو تسلیم کریں یا نہ کریں، مگر فلسطین کو تو پہلے ہی خون، مٹی اور ان ماؤں کے آنسو تسلیم کر چکے ہیں جو اب بھی اپنے بچوں کو آواز دیتی ہیں۔
میں وہ بچہ ہوں جو اب بھی خواب دیکھتا ہے، اسپتال کے بستر سے بھی۔ خواب کہ ایک دن غزہ صرف ملبہ نہ ہوگا۔ ایک دن دنیا یاد رکھے گی کہ کیا برباد ہوا، مگر یہ بھی کہ کیا بچایا جا سکتا ہے۔ مگر آج رات جب میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو صرف تقریریں دیکھتا ہوں، اسکرین پر۔ اور جب کان لگاتا ہوں تو صرف بموں کی گونج سنتا ہوں—جو اُن کے الفاظ سے کہیں زیادہ بلند تھی۔