
اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے زیرِاہتمام “اہلِ قلم سے ملیے” کی یادگار نشست، ممتاز صحافی و ادیبہ شمیم اکرام الحق کے اعزاز میں انعقاد
اسلام آباد، یورپ ٹوڈے: ۷ اکتوبر ۲۰۲۵ء: "اہلِ قلم سے ملیے”اکادمی ادبیاتِ پاکستان کا ایک ادبی سلسلہ ہے، جس میں اکابرین علم و فضل ، دانش وروں اور ادبا کے ساتھ خصوصی مکالمہ کیا جاتا ہے تاکہ ان کی علمی و ادبی خدمات کو اجاگر کر کے آئندہ نسلوں تک پہنچایا جا سکے۔اس سلسلے کی ایک خصوصی اور یادگار نشست ۷اکتوبر ۲۰۲۵ء کو ممتاز صحافی، اردو اور پنجابی زبانوں کی شاعرہ،براڈکاسٹر،سفرنامہ نگار اور افسانہ نویس محترمہ شمیم اکرام الحق کے اعزاز میں ان کی رہائش گاہ پر منعقد ہوئی۔
ادب و صحافت کی اس باوقار محفل میں ممتاز ادبی و علمی شخصیات شریک ہوئیں،جن میں محترمہ کشور ناہید، محترمہ فریدہ حفیظ، محترم حفیظ صاحب، محترمہ ثروت محی الدین، محترمہ نعیم فاطمہ علوی، جناب محمدحمید شاہد، محترمہ یاسمین حمید، صدر نشین اکادمی ادبیات پاکستان پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف، ناظم جناب عاصم بٹ، نائب ناظم ڈاکٹر بی بی امینہ اور جناب قاسم شہزاد شامل تھے۔اس موقعے پر محترمہ شمیم اکرام الحق کی صاحبزادی سحرین، داماد اور نواسے نے بھی اپنی موجودگی سے محفل کو بھرپور خاندانی رنگ عطا کیا۔
“اہلِ قلم سے ملیے” کی یہ نشست دو مراحل پر مشتمل تھی۔
پہلے مرحلے میں محترمہ شمیم اکرام الحق نے اپنے نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط صحافتی و ادبی سفر کی دل نشین روداد بیان کی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا سفر “اخبارِ خواتین” سے شروع ہوا، جہاں وہ ۲۳ برس تک راولپنڈی کی نمائندہ اور اعزازی نامہ نگار رہیں اور ایک مکمل صفحے پر مشتمل،ہفتہ وار ڈائری کی صورت میں اپنی رپورٹنگ کے ذریعے خواتین کی آواز بنیں۔اس حوالے سے انھوں نے محترمہ کشور ناہیدکو اپنا رول ماڈل قرار دیا اور خواتین کے لیے کی جانے والی ان کی خدمات کو سراہا۔
انھوں نے سفرنامہ نگاری،اردو و پنجابی شاعری اور افسانہ نویسی کے میدانوں میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے گفتگو کی اور بتایا کہ انھوں نے مختلف ممالک کے اسفار کیے۔ان کا عراق کا سفرنامہ "دجلہ کنارے” اور بھارت کا سفرنامہ "دلی کہ ایک شہر تھا” اخبارِ خواتین میں قسط وار شائع ہوئے اور قارئین میں بے حد مقبول ہوئے جب کہ مشاعروں میں انھوں نے اپنی اردو اور پنجابی شاعری سے سامعین کو محظوظ کیا۔
ریڈیو پاکستان راولپنڈی اسٹیشن سے ان کا گہرا تعلق رہا۔ وہ ایک کہنہ مشق اناؤنسر، کمپیئر اور فیچر نگار کی حیثیت سے پہچانی گئیں۔ پروگرام "سوغات” کے مشہور کردار "آنٹی چنتے” نے خاص طور پر ان کی انفرادی شناخت قائم کی۔اردو و پوٹھوہاری کے امتزاج سے لبریز ان کے مکالموں اور پرفارمنس نے سامعین کو برسوں محظوظ کیا۔محترمہ شمیم اکرام الحق نے نشست کے پہلے مرحلے میں اپنی پنجابی و اردو نظمیں اور غزلیں بھی پیش کیں، جنھیں حاضرین نے بے حد سراہا۔
دوسرے مرحلے میں سوال و جواب کا سلسلہ ہوا، جس میں ان کی صحافی دوستوں نے گفتگو کو ایک خوش گوار اور ذاتی رنگ دیا۔ اس میں ان کے پیشہ ورانہ چیلنجز، خاندانی زندگی کے تقاضوں اور خواتین کے مسائل پر ان کے مؤقف کو موضوع بنایا گیا۔ محترمہ شمیم اکرام الحق نے نہایت برجستگی اور خلوص سے ان کا جواب دیا، جس نے محفل کو مزید جان دار کر دیا۔
نشست کا اختتام اکادمی ادبیات پاکستان کی صدر پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف کے اظہارِ سپاس اور حاضرین کی نیک تمناؤں پر ہوا، جنھوں نے محترمہ شمیم اکرام الحق کی زندگی اور خدمات کو نہ صرف خراجِ تحسین پیش کیا بلکہ ان کی شخصیت کو نئی نسل کے لیے ایک روشن مثال قرار دیا۔ محترمہ کشور ناہید نے اس موقع پر مہمان شخصیت کے لیے کہی گئی اپنی نظم بھی سنائی اور انھیں ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت کے طور پر خراجِ تحسین پیش کیا جنھوں نے نہ صرف قلم کے وقار کو بلند رکھا بلکہ اپنی زندگی اور کام سے آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن اور قابلِ تقلید مثال قائم کی۔
یہ نشست محض ایک رسمی تقریب نہیں تھی بلکہ ایک بامعنی محفل تھی۔ایسی شام جو سامعین کے دلوں میں دیر تک گونجتی رہے گی کہ محترمہ شمیم اکرام الحق نے اس محفل کو علم و محبت کی ایسی فضا میں بدل دیا جہاں صرف ان کی تحریر ہی نہیں،ان کی بھرپوراور خوب صورت شخصیت بھی بولتی نظر آئی۔ ان کی باتوں میں جہاں ایک تجربہ کار صحافی کی سنجیدگی تھی وہیں ایک تخلیق کار کی شگفتگی اور ایک خاتونِ خانہ کی بے ساختگی بھی جھلک رہی تھی، جس نے اس نشست کو یادگار بنا دیا۔