تعاون

امن، ترقی اور تعاون کی سمت بڑھتا ہوا سفر

آج کی مسلم دنیا ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ سیاسی بے چینی، معاشی غیر یقینی، اور خودمختاری کو درپیش خطرات نے امتِ مسلمہ کے حوصلے، اتحاد اور بصیرت کا امتحان لے لیا ہے۔ دہشت گردی، بیرونی مداخلت، معاشی ناہمواری اور ماحولیاتی بحران جیسے چیلنجز نے امت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں، مگر ان مشکلات کے باوجود ایک روشن پہلو یہ ہے کہ مسلم ممالک باہمی تعاون، مکالمے اور مشترکہ کاوشوں کی اہمیت کو پہلے سے زیادہ شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔ انہی کوششوں کے ذریعے پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کا بڑھتا ہوا اتحاد امتِ مسلمہ کے لیے امید کی ایک نئی کرن بن چکا ہے۔

یہ اتحاد سب سے زیادہ مؤثر انداز میں پارلیمانی سفارت کاری کے ذریعے ابھر کر سامنے آیا ہے۔ جب روایتی سفارت کاری اکثر بند کمروں تک محدود رہتی ہے، وہاں پارلیمانی روابط عوامی نمائندگی، باہمی احترام اور اجتماعی شعور پر مبنی ایک حقیقی پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔ اس میدان میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے بے مثال کردار ادا کیا ہے۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے نہ صرف عالمی پارلیمانی سفارت کاری میں اپنا نمایاں کردار قائم رکھا بلکہ مسلم ممالک کے درمیان مکالمے اور ہم آہنگی کا ایک پُل بھی تعمیر کیا۔

انہی کوششوں کا نتیجہ "تین ملکی اسپیکرز فورم” کی شکل میں سامنے آیا جو پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کے مابین قائم کیا گیا۔ اس فورم کا تصور پہلی بار 2021 میں اسلام آباد میں منعقدہ پارلیمانی اسمبلی برائے اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن کی جنرل کانفرنس میں پیش کیا گیا۔ فوراً بعد، آذربائیجان کی اسپیکر محترمہ صاحبہ غفاروا کی میزبانی میں باکو میں پہلا اجلاس منعقد ہوا جس میں تاریخی باکو اعلامیہ منظور کیا گیا۔ اس اعلامیہ نے تجارت، سلامتی، ثقافت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں طویل المدتی تعاون کی بنیاد رکھی۔ ایک سال بعد، ترکیہ میں گرینڈ نیشنل اسمبلی کے اسپیکر پروفیسر ڈاکٹر مصطفی شین توپ کی سربراہی میں دوسرا اجلاس ہوا جس نے اس شراکت داری کو مزید منظم اور ادارہ جاتی بنانے کی راہ ہموار کی۔

اب، اکتوبر 2025 میں اسلام آباد تیسرے سہ ملکی اسپیکرز کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے — ایک ایسا اجتماع جو علامتی کے ساتھ ساتھ عملی اہمیت بھی رکھتا ہے۔ یہ تین ایسے ممالک کا اتحاد ہے جن کا رشتہ محض سفارت تک محدود نہیں، بلکہ جیسا کہ اسپیکر ایاز صادق نے کہا، "تین ریاستیں، ایک قوم” کی تعبیر ہے، جو ایمان، تاریخ اور تہذیبی ورثے کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔

افتتاحی اجلاس میں اسپیکر سردار ایاز صادق نے آذربائیجان اور ترکیہ کے معزز وفود کا پُرتپاک خیرمقدم کیا اور اس فورم کو محض رسمی نہیں بلکہ علاقائی امن، سلامتی اور خوشحالی کے لیے ایک عملی پلیٹ فارم قرار دیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ پچھلی ملاقات 2023 میں ترکیہ کے تباہ کن زلزلے کے باعث مؤخر ہوئی تھی، اور اب اس کانفرنس کا انعقاد تینوں ممالک کی استقامت اور باہمی اخوت کی علامت ہے۔

اسپیکر سردار  ایاز صادق نے فلسطین کے مظلوم عوام سے پاکستان کی غیر متزلزل اخلاقی اور سیاسی حمایت کا اعادہ کیا، اور بھارت کے زیرِ تسلط جموں و کشمیر میں جاری ریاستی جبر کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان کی حالیہ کارروائی “آپریشن بنیان المرصوص” کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنی خودمختاری کا ہر قیمت پر دفاع کرے گا۔ اس موقع پر انہوں نے انڈس واٹر ٹریٹی کی یکطرفہ معطلی کو بھی "پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے” کی خطرناک روش قرار دیا۔

سلامتی کے حوالے سے پاکستان نے بھارت پر افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کا  ذمہ دار قرار دیا اور طالبان حکومت سے مؤثر کارروائی کا مطالبہ کیا۔ تاہم، ان تمام تشویشات کے باوجود، پاکستان کا لہجہ امید سے بھرپور تھا — ایسی امید جو مکالمے، تعاون اور باہمی احترام میں مضمر ہے۔ اسپیکر نے ماحولیاتی تبدیلی کو بھی ایک عالمی ناانصافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک جو آلودگی میں نہ ہونے کے برابر کردار ادا کرتے ہیں، ماحولیاتی آفات کا سب سے زیادہ شکار بنتے ہیں، اس لیے عالمی سطح پر انصاف پر مبنی اجتماعی لائحہ عمل ناگزیر ہے۔

آذربائیجان کی اسپیکر محترمہ صاحبہ غفاروا نے اپنے خطاب میں پاکستان کی میزبانی اور مہمان نوازی پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ موجودہ دنیا میں جہاں مفادات بین الاقوامی قانون پر غالب آ رہے ہیں، وہاں پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کا اتحاد مخلصی، اعتماد اور دوستی کی روشن مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی سفارت کاری اب عالمی مسائل کے حل کے لیے ایک لازمی آلہ بن چکی ہے، اور 2021 میں شروع کیا گیا یہ سہ ملکی مکینزم نہ صرف تعلقات کو مضبوط بنا چکا ہے بلکہ عوامی سطح پر قربتیں بھی بڑھا رہا ہے۔

ترکیہ کے اسپیکر پروفیسر ڈاکٹر نعمان کرتلمش نے اپنے خطاب میں پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں اور سیلاب کے متاثرین سے اظہارِ ہمدردی کیا اور کہا کہ ترکیہ دہشت گردی کے خلاف اپنی صلاحیتیں اور تجربات برادر ممالک کے ساتھ بانٹنے کو تیار ہے۔ انہوں نے اس سہ ملکی فورم کو ایک دیرپا ادارہ جاتی شکل دینے، پارلیمانی کمیٹیوں، دوستی گروپوں اور نوجوان اراکین پارلیمان کے فورم کے قیام کی تجاویز پیش کیں تاکہ یہ تعلق نسل در نسل مضبوط ہو۔

انہوں نے افغانستان سے جنم لینے والی دہشت گردی، منشیات اور غیر قانونی ہجرت کے خطرات پر مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوں نے آذربائیجان کی ارضی سالمیت کی بحالی کو تاریخی کامیابی اور پاکستان کے صبر و تدبر کو قابلِ تحسین قرار دیا۔ فلسطین کے مسئلے پر انہوں نے واضح کہا کہ جنگ بندی خوش آئند ضرور ہے مگر ناکافی ہے — حقیقی امن کے لیے قبضے، محاصرے اور نسل کشی کا خاتمہ ضروری ہے۔

چیئرمین سینیٹ پاکستان نے اپنے خطاب میں اس سہ ملکی تعلق کو “ایمان اور یقین کا رشتہ” قرار دیا جو وقت اور حالات کے ہر امتحان میں کامیاب ثابت ہوا ہے۔ انہوں نے خلافت تحریک، آذربائیجان کی آزادی میں پاکستان کے کردار اور کشمیر کے معاملے پر ترکیہ کی حمایت جیسے تاریخی حوالوں سے یاد دلایا کہ یہ اتحاد محض مفادات پر مبنی نہیں بلکہ دلوں کا رشتہ ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پارلیمان کو "تاریخ کے معمار” بننا چاہیے — ایسے ادارے جو انصاف، امن اور ترقی کے لیے اجتماعی ضمیر کی آواز بنیں۔

اسلام آباد کی یہ نشست صرف ایک سفارتی اجلاس نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی اجتماعی فکر اور جذبے کا مظہر ہے۔ یہ اس یقین کا اظہار ہے کہ مسلم دنیا کی اصل طاقت اتحاد میں ہے، اور پارلیمانی تعاون اس اتحاد کی سب سے جمہوری شکل ہے۔ پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کا یہ فورم دوستی کو پالیسی میں، یکجہتی کو عملی حکمتِ عملی میں، اور امید کو حقیقت میں بدلنے کا عزم رکھتا ہے۔

ایک ایسے دور میں جب دنیا بداعتمادی اور تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے، یہ تین برادر ممالک تعاون، ہمدردی اور امن کا ایک نیا بیانیہ پیش کر رہے ہیں۔ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ امن، محض جنگ کی غیر موجودگی نہیں بلکہ اجتماعی عزم کی فتح ہے — اور جب قومیں ایمان، شجاعت اور اخلاص کے ساتھ متحد ہوں، تو دنیا میں انصاف اور سلامتی کے نئے دروازے کھل جاتے ہیں۔

پرابوو Previous post صدر پرابوو سبیانٹو نویں عالمی فورم برائے امن میں پیغامات امن دیں گے، دین شمس الدین
قازقستان Next post قازقستان: توانائی اور ایندھن کے شعبے میں نمایاں ترقی، وزیر توانائی کی رپورٹ