
ہنوئی میں توانائی کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کے فروغ پر ورکشاپ، ویتنام کی توانائی منتقلی میں نجی شعبے کے کردار پر زور
ہنوئی، یورپ ٹوڈے: ویتنام کی تیز رفتار توانائی منتقلی کے تناظر میں نجی مالی وسائل کی مؤثر شمولیت توانائی کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کی ضروریات پوری کرنے، توانائی کے تحفظ کو مضبوط بنانے اور سبز ترقی کے فروغ کے لیے ناگزیر بنتی جا رہی ہے۔
اسی حوالے سے 3 دسمبر کو ہنوئی میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پروجیکٹ سروسز (UNOPS) نے ساؤتھ ایسٹ ایشیا انرجی ٹرانزیشن پارٹنرشپ (ETP) کے تحت وزارتِ خزانہ کے محکمہ خزانہ و شعبہ جاتی اقتصادیات کے تعاون سے نجی شعبے کی توانائی سرمایہ کاری میں شمولیت کے فروغ پر ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا۔
ورکشاپ کا مقصد وزارت خزانہ اور UNOPS/ETP کے درمیان تعاون کے ابتدائی نتائج کا جائزہ لینا، عالمی تجربات پر تبادلہ خیال کرنا، ابھرتے ہوئے مالیاتی ماڈلز کا مطالعہ کرنا اور ویتنام کے توانائی شعبے میں نجی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے مؤثر حکمتِ عملیاں وضع کرنا تھا—ایک ایسا شعبہ جو عالمی کارپوریشنز، انفراسٹرکچر فنڈز اور ملکی کاروباری اداروں کی توجہ تیزی سے اپنی جانب مبذول کر رہا ہے۔
افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محکمہ خزانہ و شعبہ جاتی اقتصادیات کے نائب سربراہ لے توان آنہ نے کہا کہ ویتنام تیز رفتار معاشی تبدیلی اور مضبوط جی ڈی پی ترقی کے مرحلے سے گزر رہا ہے، اور آئندہ دہائی میں قومی توانائی کی طلب سالانہ 8 سے 10 فیصد بڑھنے کا امکان ہے۔ ان کے مطابق، 2020 میں جاری کردہ ریزولوشن 55 نے 2030 تک قومی توانائی ترقی کی حکمت عملی اور 2045 تک کے وژن کے تحت توانائی کے جدید نظام کی تشکیل، شفاف اور مسابقتی توانائی مارکیٹ کے قیام اور قابل تجدید توانائی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کے اہداف واضح کر دیے ہیں۔
پاور ڈیولپمنٹ پلان VIII کے مطابق 2021 سے 2030 کے دوران بجلی کے شعبے کو تقریباً 134 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوگی، جس کا بڑا حصہ نجی شعبے سے آنے کی توقع ہے، تاکہ کم اخراج اور لچکدار جدید پاور سسٹم کی تشکیل ممکن ہو سکے۔ ویتنام کی جانب سے COP26 میں 2050 تک نیٹ زیرو کے ہدف کا عزم اس ضرورت کو مزید بڑھا دیتا ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ بڑے پیمانے پر متحرک کیا جائے۔
لے توان آنہ نے کہا کہ ’’اس تناظر میں نجی شعبے کا کردار نہایت اہم ہو جاتا ہے، خصوصاً قابل تجدید توانائی، ٹرانسمیشن سسٹمز، توانائی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اور سبز و پائیدار مالیاتی ماڈلز میں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وزارتِ خزانہ مالیاتی نظام کی بہتری، سرمایہ کاری کے حصول کے آلات کی تیاری، اور ٹیکس، فیس اور کریڈٹ پالیسیوں میں اصلاحات کے ذریعے بین الاقوامی معیار کے مطابق مستحکم اور شفاف سرمایہ کاری ماحول فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
ورکشاپ میں ETP/UNOPS کے نائب ڈائریکٹر جان رابرٹ کاٹن نے دنیا بھر میں توانائی کے شعبے میں تیزی سے آنے والی تبدیلیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق ابھرتی ہوئی معیشتوں کو صاف توانائی میں سالانہ سرمایہ کاری 770 ارب ڈالر سے بڑھا کر 2030 تک 2.2 ٹریلین ڈالر کرنی ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف نجی سرمایہ کاری کو 135 ارب ڈالر سے بڑھا کر تقریباً 1.1 ٹریلین ڈالر تک پہنچانا ہوگا، جو موجودہ حجم کے مقابلے میں سات گنا اضافہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو ممالک شفاف اور قابلِ پیشگوئی قانونی فریم ورک فراہم کرتے ہیں، وہی توانائی منتقلی کے لیے ضروری مالی وسائل کو مؤثر طور پر اپنی جانب راغب کر سکیں گے۔ کاٹن کے مطابق اگرچہ COP30 میں عالمی موافقتی فنڈنگ کو تین گنا بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، لیکن ضرورت اور دستیاب وسائل کے درمیان فرق اب بھی بہت زیادہ ہے۔
ویتنام میں پولٹ بیورو کی ریزولوشن 68 نجی معاشی ترقی کے لیے ایک نئی سمت متعین کرتی ہے اور سرمایہ کاری کے ماحول میں تیز رفتار بہتری کی ضرورت پر زور دیتی ہے، جو توانائی منتقلی میں نجی شعبے کے بڑھتے ہوئے کردار کے لیے اہم پیش رفت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاور پلان VIII کے اہداف—قابل تجدید توانائی میں توسیع، گرڈ اپ گریڈیشن، اسٹوریج کے نظام میں اضافہ اور صنعتی اخراج میں کمی—ایسی سرمایہ کاری کا تقاضا کرتے ہیں جو صرف سرکاری وسائل سے ممکن نہیں۔ اسی لیے ETP وزارتِ خزانہ کے ساتھ مل کر ایسے مالیاتی ماڈلز اور پالیسی اقدامات کا جائزہ لے رہا ہے جو پبلک۔پرائیویٹ پارٹنرشپس، بلینڈڈ فنانسنگ اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنے والے چینلز کے فروغ میں مددگار ہوں۔
ورکشاپ کے دوران ماہرین نے عالمی بہترین طریقوں کا تجزیہ کیا، ویتنام کے مالیاتی قانونی ڈھانچے کا جائزہ لیا، اہم چیلنجوں کی نشاندہی کی اور جدید مالیاتی ماڈلز تجویز کیے جو توانائی منتقلی میں نجی شعبے کی زیادہ موثر شمولیت کے لیے معاون ثابت ہوں گے۔ ان سفارشات سے مستقبل کی پالیسی سازی میں مدد ملنے، رکاوٹوں کے خاتمے اور توانائی مارکیٹ میں نئی رفتار پیدا ہونے کی توقع ہے، خاص طور پر اس وقت جب ویتنام کی توانائی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی ضرورت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔