قحط الرجال کیوں اور اس کا تدارک کیسے ہو
قحط کسی ضروری چیز کا پڑ جائے تو ہر طرف ایک بے چینی اور بے قراری کا عالم ہوتا ہے بالخصوص خوراک کا قحط تو پورے ملک اور حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے جبکہ درحقیقت قحط الرجال قوموں کے لیئے ضروریات زندگی کے قحط کی نسبت انتہائی خطرناک ہوتا ہے(قحط الرجال سے مراد مردان کار کی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کمی یا فقدان ہے جس کے نتیجے میں دیگر قحط جنم لیتے ہیں) معاملہ فہم ، صاحب علم، اہل اور زیرک افراد کی کسی ملک کے مناصب پر موجودگی ہمشیہ مشکل حالات میں راستہ تلاش کرکے موجود مسائل اور مصیبتوں سے بچ نکلنے میں مدد گار ہوتی ہے اور آئندہ پیش آنے والے ممکنہ مسائل اور مصائب کا ادراک کرکے مناسب پیش بندی میں معاون و مددگار ہوتی ہے،اسکی بہترین مثال ہمیں قرآن حکیم کی سورہ یوسف میں ملتی ہے کہ کسطرح عزیز مصر کو یوسف علیہ اسلام کی مشاورت نے مصر میں آنے والے قحط سے نبٹنے میں مدد دی۔
تاریخ مردان کار کی کمی اور زیادتی کے نتائج سے بھری پڑی ہے ،روایت ہے کہ جب نادر شاہ درانی نے دہلی پر قبضہ کر لیا تو محمد شاہ رنگیلے نے اسکے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کیا کھانے کے بعد دونوں بادشاہ بات چیت میں مصروف تھے کہ شاہی ملازم قہوہ لے کر حاضر ہوا قہوہ پیالیوں میں ڈالنے کے بعد اسے ایک لمحے کے لیئے پریشان کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑا کہ پہلے آپنے بادشاہ کی خدمت میں قہوہ پیش کرتا ہے تو فاتح بادشاہ ناراض ہو سکتا ہے اوراگرفاتح بادشاہ کو پیش کرتا ہے تو فاتح کے جانے کے بعد اپنے بادشاہ کے غضب سے کیسے بچے، اس نے ایک دم پیالی اپنے بادشاہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اب بادشاہ سلامت اپنے دست مبارک سے اپنے مہمان گرامی کو قہوہ پیش فرمائیں گے،نادرشاہ جو کہ سارے معاملے کاگہری نظرسے جائزہ لے رہا تھا ، مسکرایا پھر بادشاہ سے مخاطب ہوا اور کہا، اگر آپ کے دیگرعمائدین سلطنت میں اس ملازم جیسی فہم و فراست ہوتی تو میں آج یہاں موجود نہ ہوتا گویا مردان کار کی کمی غیر ملکی جارحیت کی کامیابی کا باعث بنتی ہے۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارا ملک اور قوم بھی قحط الرجال کا شکار ہیں ہمارے ملک کے بیشمار مسائل،سرکاری محکموں کی کارکردگی پر عوام کا عدم اطمینان ،معاشی اور معاشرتی ابتری ملک میں قحط الرجال کی غمازی ہی تو کرتی ہے، اسوقت جب کہ ہم اپنی آزادی کی 77 سالگرہیں منا چکے ہیں زندکی کا ہر شعبہ مردان کار سے خالی محسوس ہوتا ہے پاکستان کے قیام کے وقت ہر شعبہ زندگی میں مردان کار بکثرت تھے سیاسی قائدین منجھے ہوئے تھے اور انتظامی اور عدالتی اموراوپر سے نیچے تک نوآبادیاتی دورکےتربیت یافتہ افراد کے ہاتھ میں تھے پھر وقت کے ساتھ یہ لوگ کم ہوتے چلے گئے اور انکی جگہ وہ لوگ آنے شروع ہوگئے جن کی اکثریت نااہل،خود غرض اور ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے والی تھی نتیجتا” ملک دن بدن بگاڑ کے راستے پر گامزن ہو نے لگا اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہر شعبہ زندگی سنجیدہ اور وسیع اصلاحات سے ہی درست ہو سکتا ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ ملک کا پورا نظام جن اصلاحات کا متقاضی ہے اسکے لیئے جن مردان کار کی ضرورت ہے وہ نظر آتے بھی ہیں تو کم تعداد میں ،علم کی دنیا تو یوں لگتا ہے جیسے سونی پڑی ہے، سائنس کی دنیا میں کوئی ایسا نام نہیں جس نے آزادی کے بعد کی دھائی میں جنم لیا ہو.
یہی حال سیاست، صحافت، معاشیات، شاعری، ادب اور دیگر علوم وفنون کا ہے ادب ،مذہب اور دیگرشعبہ ہائے زندگی سے متعلق علوم پراب تو کوئی اچھی کتاب بھی ڈھونڈے سے کم ہی ملتی ہے جو کسی ایسے شخص نے لکھی ہو جس کا سن پیدائش آزادی کے بعد کی دہائی سے ہو جبکہ آزادی سے پہلے یا آزادی کے فورا” بعد کی علمی،ادبی، ۔سیاسی اور مذہبی شخصیات کا جائزہ لیا جائے تو بے شمار قدآور اور مشہور شخصیات نظر آتی ہیں جنھوں نے اپنے اپنے علمی اور عملی دائرہ کار میں کارہا ئے نمایاں سرانجام دئیے اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچے اب بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں افراد کا تعلق اسی زمانے کے لوگوں سے ہےآخر کیا وجہ ہے کہ کردار،اخلاق اور کارکردگی کے اعتبارسے آزادی سے پہلے اور فورا” بعد کے لوگوں جیسے لوگ بتدریج کم ہوتے چلے جارہے ہیں۔اس بات پر غور و فکر کی ضرورت ہے آخر وہ کون سے عوامل ہیں جنھوں نے ہمارے ہاں قحط الرجال کی ایسی کیفیت پیدا کر دی ہے کہ ہر شعبہ زندگی بحرانی کیفیت سے دوچار ہے کیا اس میں قصور ہمارے تعلیمی یا تربیتی نظام کاہے یا اس کا دوش ماں باپ ،اساتذہ کرام یا ریاستی لا پرواہی کو دیا جائے میرے خیال میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی درجے پر ان سارے عوامل کا عمل دخل بھی ضرور ہوگا اگر چہ تعلیمی نظام تو کم و بیش وہی ہے جو آزادی سے پہلے تھا،تربیتی نظام میں بھی بعض پہلووءں سے بہتری ہی آئی ہے وسائل میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہی ہوا ہے، اساتذہ کرام کی تعلیم و تربیت پر بھی بہت زور رہا ہے تعلیمی اداروں اور ان میں تعلیم حاصل کرنےوالوں کی تعداد اور سہولیات میں بھی ماضی کی نسبت خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے لیکن کہیں تو خرابی ہے کہ اب مختلف شعبوں میں مشاہیرکا سلسلہ رکا ہوا ہے اس قد کاٹھ کے لوگ عنقا ہیں جن کا وجود آزادی سے پہلے آپنے شعبوں میں سند کا درجہ رکھتا تھا
مذہب کے حوالے سے بات کی جائے تو آج کون ہے جو مولانا ابوالکلام آزاد،سید مودودی، امین احسن اصلاحی ، انور شاہ کشمیری،مفتی نعیم مراد آبادی،پیر مہر علی شاہ اور آ نکے ہمعصر دیگر علمائے کرام کے مقابلے میں پیش کیا جائے،میدان سیاست میں قائداعظم محمد علی جناح سے لیکر نواب زادہ نصراللہ خان تک کے مقابلے کے بااصول اور بے غرض سیاستدان بھی بہت کم نظر آتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں سیاست کا مشغلہ قبول عام کا درجہ رکھتا ہے اور ساری قوم اسے قومی کھیل سمجھ کر اس میں حصہ لیتی ہے یا تماشائیوں جیسے جوش و خروش کا مظاہرہ کرکے اپنی دلچسپی کا اظہار کرتی ہے ،شاعری میں علامہ اقبال، جوش ملیح آبادی سے ہوتے ہوئے آج کے ممتاز شعراء سب کے سب اسی دور کے ہیں جو آزادی سے پہلے کا تھا موسیقی کی دنیا میں سہگل ، مہدی حسن ، نورجہان اور انکے دیگر ہمعصروں جیسے لوگ دن بدن اسطرح سے کم ہو رہے ہیں کہ ان جیسے انکی جگہ لینے کو موجود نہیں اور سائنس کی دنیا کا بھی یہی حال ہے ڈاکٹر رضی الدین ، علامہ عنایت اللہ مشرقی، ڈاکٹر عبدالسلام ، ڈاکٹر عبدلقدیر خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسوں کی جگہ لینے کے لیئے کتنے نئی نسل میں موجود ہیں،صحافت میں آج بھی جن لوگوں کا سکہ چل رہا ہے وہ اسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو آزادی سے پہلے پیدا ہوئی،گویا علم و ادب، یہانتک کہ موسیقی اور مصوری ،تجارت ، صنعت اور کامرس کی دنیا میں آزادی کی پہلی دہائی کےبعد پیدا ہونے والوں میں مشاہیر اورخاص وعام کارکنان ریاست کی اہلیت والے لوگ ڈھونڈے سے ملنے مشکل ہیں۔اس قحط الرجال کی وجوہات اور تدارک پر ملکی سطح پر غور و فکر کے لیئے ہر شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین اور ماہرین سماجیات کی مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے جو اس بات اوران وجوہات کا پتہ لگائیں کہ ایسا کیوں ہوا کہ آزادی سے پہلے کی صدی میں صاحبان علم و عمل کی جو کہکشاں نظر آتی ہے وہ آزادی کے بعد ختم ہوتی جارہی ہے اور نئے تارے طلوع نہیں ہو رہے ایسی تحقیق اس لیئے بھی ضروری ہے تاکہ آئندہ آنے والے زمانے میں ملک و قوم کی فکری اور عملی زندگی میں بتدریج بڑھتا ہوا جو بحران نظر آ رہا ہے اس کا سد باب ہو سکے۔
اس قحط الرجال کو موجودہ اہل علم اپنا موضوع بنائیں اور قومی میڈیا پر سیر حاصل بحث کا آغاز کیا جائے تاکہ وجوہات کا مکمل پتہ لگایا جا سکے اور مناسب منصوبہ بندی سے اس پیدا ہونے والے خلا پر قابو پانے کا لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔ہم قحط الرجال کی ممکنہ وجوہات کے عنوانات کو قومی بحث مباحثے کا موضوع بنا کر خرابی کی جڑ تک پہنچ سکتے ہیں اگر ایسا ہو جائے تو اس کے حل کی طرف پیش رفت کی جا سکتی ہے اور اخلاقی، علمی،فکری،معاشی ، معاشرتی اور سائنسی ترقی کے عمل کو دور حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کرنےکے قابل مردان کار پیدا کیئے جا سکتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر تیزی سے بدلتی دنیا کا ساتھ دینا اور مقابلہ کرنا ممکن ہی نہیں۔جو قومیں مردان کار پیدا نہیں کرتیں وہ ہر لحاظ سے کمزور ہو جاتی ہیں اور ان کی کثیر تعداد بھی جنگل میں اگنے والی گھاس پھوس کی مانند ہوتی ہے جس کی زندگی مختصر اور قسمت میں روندے جانا ہی ہوتا ہے۔ قومیں مال و دولت کی کمی بیشی سے نہیں مردان کار کی کثرت اور قلت سے امیر یا غریب،طاقتور یا کمزورہوتی ہیں، مردان کار کی قلت یا عنقا ہونا قحط الرجال کہلاتا ہے اور یہی قحط الرجال ہر قسم کے دیگر قحطوں کا باعث ہوتا ہے۔بھوک کو جنم دینے والے قحط کے ازالے کے لیئے پوری دنیامددکے لیئے آ جاتی ہے لیکن قحط الرجال سے نجات کے لیئے قوم کا احساس زیاں زندہ ہونا اوراس سے نبردآزما ہونے کی لگن اور جوش و جذبہ ہی کام آتا ہے جس کے لیئے حکومت اور سوشل ریفارمرز مل جل کر کردار ادا کر سکتے ہیں۔