اشک آباد

اشک آباد کا ایک ناقابل فراموش سفر: قدیم آناو تہذیب کی کانفرنس اور ترکمان ثقافت کا جادو

نوروز کی تقریبات کے فوراً بعد ترکمانستان کے خوبصورت دارالحکومت اشک آباد نے 27 مارچ 2024 کو “قدیم آناؤ کی ثقافت” کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کی۔ یہ کانفرنس ترکمانستان کی اکیڈمی آف سائنسز کے تاریخ اور آثار قدیمہ کے انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام منعقد کی گئی۔۔ 2024 کا سال ترکمن قوم کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ترک ثقافت کی بین الاقوامی تنظیم (ترکسوئے) نے ترکمانستان کے قدیم شہرآناو کو “ترک دنیا کا ثقافتی دارالحکومت” قرار دیا ہے۔ اسی سال ترکمنستان کے عظیم اور محبوب شاعر مختومقلی فراغی کی پیدائش کی 300ویں سالگرہ بھی ہے اس لیے 2024 کوترک دنیا کے عظیم شاعر اور مفکر کے سال کے طور پر منایا جا رہا ہے۔

اور یوں 26 مارچ 2024 کی ایک خوبصورت صبح جب میں نے ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد کی سرزمین پر قدم رکھا، تو دل میں ایک خاص جوش اور تجسس تھا۔ ” سفید سنگ مرمرکے شہر” کہلائے جانے والے اس شہر میں ہونے والی کانفرنس کا موضوع کچھ ایسا تھا جو مجھے ماضی کی ایک عظیم تہذیب سے روشناس کروانے والا تھا – قدیم آناو تہذیب، جو ہزاروں سال سے وسطی ایشیا کے دل میں چھپی ہوئی ہے۔

خوبصورت اور جدید ہوائی اڈے سے شہر کی طرف بڑھتے ہوئے، ہر طرف سفید سنگ مرمر کی عمارتوں کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ سڑک کے دونوں جانب سرسبز درختوں اور رنگ برنگے پھولوں کی قطاریں جیسے مہمانوں کا خیرمقدم کر رہی تھیں۔ اشک آباد کی کشادہ سڑکیں اور عالیشان عمارتیں ترکمانستان کی تاریخ اور جدیدیت کا ایک شاندار امتزاج پیش کر رہی تھیں۔

وی وی آئی پی ایئرپورٹ لاؤنج میں غیر ملکی مندوبین کی گہما گہمی محل نما ہوٹل میں منتقل ہو گئی تھی، جہاں ہر کمرے کی کھڑکی سے اشک آباد کا دلکش منظر دکھائی دیتا تھا۔ یہ میرا اس شہر کا چوتھا دورہ تھا، مگر تقریباً پندرہ سال کے وقفے کے بعد۔ کوئی شک نہیں کہ شہر نے اس عرصے میں بہت ترقی کی ہے اور مزید خوبصورت ہو گیا ہے۔ مگر پرانے دوستوں کی طرف سے خیرمقدم میں وہی خلوص اور گرم جوشی تھی جو ہمیشہ ان دوروں کا خاصہ رہی ہے۔

کانفرنس سے ایک دن قبل تمام مہمانوں اور شرکاء کو اشک آباد سے 8 کلومیٹر دور واقع قدیم آناو کے مقام پر لے جایا گیا۔ آناو کی قدیم تہذیب ترکمانستان کی سب سے قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے، اور اس کے آثار قدیمہ کے شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آناو میں آبادکاری کا سلسلہ ابتدائی دھاتی دور (چار تا تین ہزار سال قبل مسیح) سے موجود تھا۔ یہاں سب سے زیادہ متاثر کن مقام سید جمال الدین مسجد کے کھنڈرات تھے، جو 15ویں صدی کی ایک عظیم الشان مسجد تھی اور 1948 کے ہولناک زلزلے میں تباہ ہو گئی تھی۔ ان کھنڈرات کی دیواروں پر شاندار اور پیچیدہ نقش و نگار اور خطاطی آج بھی اس دور کی عظمت کی عکاسی کرتے ہیں۔

27 مارچ کی صبح، کانفرنس کا آغاز ترکمانستان کے وزیر ثقافت کی تقریر سے ہوا۔ اس تقریب کا موضوع آناو تہذیب کی عظمت اور ترکمانستان کی قدیم تاریخ کے نئے پہلوؤں کو اجاگر کرنا تھا۔ یہ تہذیب اپنے وقت میں انتہائی ترقی یافتہ زرعی اور تجارتی مرکز رہی ہے، جس کے آثار قدیمہ ہمیں اس تہذیب کی روزمرہ زندگی اور معاشرتی ڈھانچے کو قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ کانفرنس کے دوران پیش کیے جانے والے مقالات میں آناو کی اسی تاریخی اہمیت پر تفصیل سے گفتگو کی گئی۔

مشہور مورخین، ماہرین آثار قدیمہ، ماہرین نسلیات، ماہرین مشرقیات، نامور پروفیسرز اور نوجوان سائنسدانوں کے علاوہ امریکہ، روس، جرمنی، ترکی، ایران، پاکستان، آذربائیجان، بیلاروس، قازقستان، کرغیزستان اور ازبکستان سے عجائب گھروں کے نمائندوں کو اس تقریب میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والی اہم شخصیات میں دو نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے ایک امریکی ماہر آثار قدیمہ رافیل پمپیلی کی پڑپوتی لیزا پمپیلی، جن کے خاندان کا آناو تہذیب کی تحقیق سے گہرا تعلق ہے۔ رافیل نے 1903-1904 میں آناو کی کھدائیوں کی سربراہی کی تھی، اپنی تحقیق میں وہ لکھتے ہیں: یہ وہ منظر ہے جو ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا – یہ وہ لمحہ ہے جب انسانیت نے وحشت سے تہذیب کی طرف قدم بڑھایا تھا۔

دوسرے خصوصی مندوب مایۂ ناز ماہر آثار قدیمہ اور محقق فریڈرک ہیبرٹ تھے، جو دنیا بھر میں قدیم راستوں اور شہروں کی کھدائیوں کے لئے مشہور ہیں۔ ان کی شرکت نے اس تحقیق کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔ آناو میں ان کی دریافتوں نے ثابت کیا کہ یہ تہذیب صرف زرعی ترقی میں ہی نہیں بلکہ شہری منصوبہ بندی اور معاشرتی تنظیم میں بھی بہت آگے تھی۔ یہاں تجارتی راستوں کے ذریعے مختلف ثقافتوں کے اثرات بھی ملے ہیں۔

آناو کی تہذیب اپنے وقت میں ترقی یافتہ شہری منصوبہ بندی اور فن تعمیر کے لئے مشہور تھی۔ آناو کے شمالی اور جنوبی ٹیلوں کی کھدائیوں سے ملنے والے قدیم عمارتوں اور زرعی نظام کے کھنڈرات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ خطہ اپنے وقت میں ترقی یافتہ شہری منصوبہ بندی اور تکنیکی مہارت کا حامل تھا۔ کارنیگی انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام اس خطے میں تحقیق نے دنیا بھر کے ماہرین کو یہ باور کرایا کہ یہ تہذیب جدید زرعی طریقوں اور معاشرتی نظاموں کی بنیاد پر اپنے عروج پر تھی، اور یہاں پایا جانے والا اناج ‘سفید گندم’ اس وقت کے زرعی نظام کی ترقی کا ثبوت ہے۔

آناو کے تاریخی کھنڈرات کے دورے کے بعد، مارچ کے خوشگوار موسم کے پس منظر میں ترکمان لوگوں اور ترکمانستان کے دیگر نسلی گروہوں کی ماضی اور حال کی روایات اور ثقافت کا ایک شاندار مظاہرہ پیش کیا گیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ترکمان لوگ اپنی متنوع ثقافت اور روایات کو منانا جانتے ہیں اور ان پر بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔ خوبصورت ترکمان لڑکیاں اپنے رنگ برنگے لباس اور خوشگوار مسکراہٹوں کے ساتھ اور خوبرو نوجوان روایتی لباس میں ملبوس، غیر ملکی اور مقامی مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے۔ الفاظ اس انتہائی شاندار ثقافتی میلے کو بیان نہیں کر سکتے جو ایک وسیع علاقے میں منعقد کیا گیا تھا- مختلف تاریخی شخصیات کا روپ دھارے اداکار ڈرامائی انداز میں ترکمانستان کی تاریخ بتا رہے تھے- ترکمانستان کی ثقافت کے شاندار مظاہرے، جس میں قومی دستکاری، قالین، زیورات اور دیگر روایتی اشیاء شامل تھیں، نے ماحول کو مزید جاندار بنایا ہوا تھا- روایتی رقص، گھوڑ سواری اور تلوار بازی کی مہارتیں قابل دید تھیں- یہ ایک ایسا منظر تھا جس نے گویا ماضی کو زندہ کر دیا تھا ۔ ترکمانستان کے مشہور کھانوں اور تندوری نان کی لائیو کوکنگ نے سارے علاقے کو لذیذ خوشبووں سے مہکایا ہوا تھا اور مندوبین کو ان کے ذائقے کا لطف اٹھانے کا موقع دیا ہوا تھا- ننھے منے بچے روائیتی ترکمن لباس پہنے تتلیوں کی طرح اڑتے پھر رہے تھے- سمجھ نہیں آرہی تھی کس کی تصویر بنائیں یا کوئی رہ نہ جائے- اس ثقافتی میلے میں جوبات میں نے محسوس کی وہ ترکمن لوگوں، چاہے مرد ہوں یا عورتیں یا بچے، ان کا قابل دید ڈسپلن، جذبہ، صلاحیت اور خوش مزاجی تھی- کسی کے چہرے پر میں نے تھکاوٹ یا بیزاری نہیں دیکھی- اور یہی حال ہمارے ساتھ راہنمائی کے لیے موجود نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا تھا- ہر وقت مسکراتے ہوئے ہشاش بشاش چہرے مندوبین کے سوالوں یا چھوٹے موٹے کاموں کے لیے ہر وقت موجود رہتے تھے- ترکمن قوم کی ایک اور خصوصیت جسے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا وہ اس کی بیمثال مہمان نوازی اور فراغ دلانہ میزبانی تھی، جس کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا-

ثقافتی میلے کے علاوہ سونے پہ سہاگہ یا جیسے انگریزی میں کہتے ہیں کیک پر چیری، ترکمن لوک موسقی کا کنسرٹ تھا – اس میں ملک کے مشہور گلوکار اور موسیقار شامل تھے – اسے آرٹ اور ٹیکنالوجی کا شہکار کہنا غلط نہیں ہوگا- بہترین اور لمحہ بالمحہ بدلتے ہوئے بیک گراونڈ سین، دل کی دھڑکن کو بدل دینے والی موسیقی، دلکش لباس، شاندار کوریوگرافی، قدیم اور جدید سازوں کا استعمال، روح کو گرما دینے والے نغمے، ایک سے ایک بڑھ کر پرفارمنس۔۔۔ گھنٹوں کا پروگرام جیسے لمحوں میں گزر گیا—

کنسرٹ کے بعد جب میں اپنے کمرے میں لوٹی تو ٹیبل پر ایک کتاب پڑی تھی، “آناو – صدیوں کی گہرائیوں سے جنم لینے والی ثقافت ” اسے ترکمانستان کے صدر قربان قلی بردی محمدوف نے تحریر کیا ہے اور اس کی رونمائی انہی دنوں میں ہوئی تھی- یہ کتاب ترکمان قوم کے تاریخی ورثے پر مبنی ہے، جس میں آناو تہذیب پر تحقیق اور ترکمانستان کی ثقافتی تاریخ پر خوبصورت انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب کو کانفرنس کے مندوبین کو ترکمانستان کے صدر کی جانب سے بطور تحفہ بھیجا گیا تھا-

میں نے کتاب اٹھائی اور صفحے پلٹتے ہوئے آناؤ کے ماضی ، حال اور مستقبل کے بارے میں پڑھنے لگ گئ- پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوا کہ آناو کی تہذیب ترکمان قوم کی روح میں رچی بسی ہوئی ہے۔ یہ صرف ماضی کی ایک یادگار نہیں، بلکہ اس قوم کی روحانی قوت اور شناخت کا سرچشمہ بھی ہے۔

ہوٹل کی کھڑکی کے باہر رات کے وقت، جب اشک آباد کی عمارتیں روشنیوں سے جگمگانے لگیں تھیں، تو شہر کا حسن ایک نیا روپ دھار چکا تھا۔ کوپیت داغ پہاڑی سلسلے کے پس منظرمیں سفید سنگ مرمر سے بنی عمارتیں رات کی تاریکی میں جیسے ایک جادوئی منظر پیش کر رہی تھیں۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا اور سوچا کہ یہ شہر اپنے اندر کتنے ہی راز چھپائے ہوئے ہے— ایک شہر جو ماضی کی عظمت اور حال کی چمک کو یکجا کرتا ہے۔

مجھے خیال آیا کہ یہ سفر صرف یہاں ختم نہیں ہوا؛ ترکمانستان کی زمین پر قدم رکھ کر میں نے ایک نئی تاریخ کو سمجھا، اور ایک ایسی تہذیب کے بارے میں جانا جو آج بھی زندہ ہے—

بیلاروس Previous post بیلاروس اور روس کو مٹانے میں مغرب ناکام رہا، بیلاروسی صدر کا بیان
ہانگ کانگ Next post چینی مین لینڈ اور ہانگ کانگ کے درمیان خدماتی تجارت میں تعاون کو مزید مضبوط کرنے کا معاہدہ