
قائد اعظم مسلمانوں کے میرکارواں
25 دسمبر 1876 اس عظیم ہستی کا یوم پیدائش ہے جس کا برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں پر پاکستان کی صورت میں احسان عظیم ہے یہ ایسا احسان ہے جس کا احساس ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتا ہی جائے گا، علامہ اقبال نے مسلمانوں کی قیادت کے لیئے اس دیدہ ور کا انتخاب اس زمانے میں کیا جب وہ سیاست سے بیزار ہوکر انگلستان جا بسا تھا حضرت علامہ کا مسلمانوں کی قیادت کے لیئے اس کا انتخاب بر صغیر کے مسلمانوں پر رب ذولجلال کی خاص رحمت بن گیا ، مسلمانان ہند کی خوش نصیبی دیکھیں کہ تاریخ کے نازک موقعے پر قائد اعظم نے فلسفی شاعر کی رائے کا احترام کیا اور واپس آ کر مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر راضی ہو گئے اور یوں مایوسی کے اندھیروں میں بھٹکتی قوم کو وہ میر کارواں میسر آ گیا جس کے بغیر حصول پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور تھا۔قائد اعظم محمد علی جناح کی خوبیوں پر جب تاریخ کا طالبعلم غور کرتا ہے تو ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے اور اسے احساس ہوتا ہے کہ جب قدرت کسی قوم پر مہربان ہوتی ہے تو اسے محمد علی جناح جیسا لیڈر عطا فرماتی ہے،قائد اعظم محمد علی جناح علامہ اقبال کےشعر
نگاہ بلند، سخن دل نواز جان پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیئے
کی مجسم تصویر تھے۔وہ بلند نگاہ، دور بین اور زیرک انسان تھے وہ ایسے قائد تھے جنکو متحدہ ہندوستان کی آزادی کی صورت میں مسلمانوں کی حالت زار کا اندازہ تھا جو اپنی خداداد بصیرت سےان حالات کو دیکھ رہے تھےجن کا سامنا آج ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان کر رہے ہیں،وہ عظیم قائد بلا کا سخن دل نواز بھی تھا اس کا قوم کے لیئے سوز دروں ہی تھا جس نےخیبر سے لے کر راس کماری تک بسنے والے مسلمانوں کے دلوں میں آزاد وطن کی وہ جوت جگائی کہ اکثریت نے اس کو اپنا غمگسار اور مخلص قائد مان لیا وہ انکے دلوں کی دھڑکن اور امیدوں کا مرکز بن گیا وہ بات اردو میں کرتا یا انگریزی میں، انگریزی سوٹ پہن کر بات کرتا یا شیروانی پہن کر ہر مسلمان کو وہ اپنا مخلص اور غمگسار لگتا ، اس کی ہر ادا مسلمانوں کی اکثریت کو اچھی لگتی تھی ،اسکی شخصیت کا کمال ہی تو تھا کہ اسکی قیادت میں صدیوں سے ذاتوں، فرقوں، علاقوں اور مسلکوں میں بٹے ہوئے مسلمان یکجا ہوگئے وہ انکے لیئے روشنی کا ایسا مینار بن گیا جو پاکستان کی منزل مراد کی طرف رہنمائی کر رہا تھا اس کی مسحور کن شخصیت نے مسلمانوں کے ہر طبقے کو اپنا اسیر کر لیا تھا ہر ایک اس کے آزاد مسلمان وطن کے تصورمیں اپنے لیئے ایک باعزت زندگی اور ترقی کے بے پناہ مواقع دیکھ رہا تھا ہر مسلمان اپنے فرقے، مسلک، علاقائی تشخص، طبقاتی ، سیاسی اور مالی مفاد کو قائد کی بتائی ہوئی علیحدہ آزاد مسلم ریاست میں محفوظ سمجھنے لگا، ایک عام مسلمان سے لے کر۔شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی ، پیر جماعت علی شاہ، مسلمان والیان ریاست،جاگیردار، کسان ، طلباء ، تاجر، سول اور فوجی آفیسر سب اس کو اپنا نجات دہندہ اور قائداعظم مان کراسکے تدبر اور اخلاص کے معترف اور معتقد بن گئے ، تاریخ کا طالبعلم دم بخود اس کی بے مثال کامیابی کی جتنی کرید کرتا ہے اسکی حیرت میں اضافہ ہی ہوتا چلاجاتا ہے کہ قدرت نے کس طرح لالے کی حنا بندی کی اور پونجا جناح کے غیر سیاسی گھرانے میں جنم لینے والا محمد علی جناح ہندوستان کا سب سے بڑا، سب سے سمجھدار سیاستدان بنا جس نے بیک وقت انگریز اور ہندو کو سمجھا اور جان لیا کہ دونوں اگر چہ باہم اختلاف کا شکار ہیں لیکن مسلمانوں کے آزاد وطن کے مطالبے کے خلاف ہمنوا ہیں اور ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں، اس نے کمال ذہانت سےان کے اختلاف کو اپنی طاقت بنالیا اور جب بھی کانگریس نے انگریز حکومت کو زچ کر کے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اس نے کمزوردشمن کی بجائے طاقتور دشمن کی طرف دست تعاون بڑھا کر مسلمانوں کے مفاد کے حصول کی کامیاب کوشش کی، کانگریس نے دوسری جنگ عظیم میں انگریز کو مبتلا مصیبت دیکھ کر جنگ میں غیر جانبداری کا اعلان کیا ، وزارتوں سے استعفے دئیے اور ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک شروع کی تو قائد نے کمال سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا اور فورا” تاریخ کا دھارا بدلنے والا فیصلہ کیا، انگریز کی طرف دست تعاون بڑھایا اور ساتھ ہی مطالبہ کیا : ہندوستان کو تقسیم کرو اور چھوڑ دو یہ ہندوستان میں بسنے والی مسلمان قوم کی سمت کا تعین تھا ، جنگ عظیم دوئم کے پورے عرصے میں کانگریس کی ساری قیادت جیل کی ہوا کھاتی رہی اور قائداعظم مسلمانوں کو بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کی تنظیم بھی کرتے رہے جس کے نتیجے میں جنگ کے خاتمے پر وہ اس قابل ہو چکے تھے کہ ایک ایسی اسلامی نظریاتی مملکت کا مطالبہ منوا سکیں جس کاخواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جس کو قرار داد لاہور کی صورت میں مسلم لیگ نے اپنی منزل قرار دیا تھا۔ محمد علی جناح کا قائداعظم بننے تک کا سفر آنے والے زمانوں کے رہنماوءں کے لیئے مشعل راہ ہے کہ کس طرح ایک صاحب بصیرت رہنما ساری درپیش مشکلات کے باوجود وقت کے دھارے کو اپنے آدرش کے مطابق ڈھالتا ہے ، وہ فکری جمود کا شکار نہیں ہو تا وقت کی نبض کوخوب اچھی طرح پہچان کر اپنی قوم کے جذبات کو بامقصد رخ دیتا ھے مخالفین کی سیاسی چالوں کے مضمرات سے اپنے عوام کو آگاہی دیتا ہے، قائد اعظم نے مکمل دلائل سے انڈین نیشنل کانگریس کی وطنی قومیت کے فلسفے کے پیچھے رام راج کی خواہش سے مسلمانوں کو اتنا زیادہ آگاہ کر دیا کہ انھوں نے کانگریس کے فریب کا شکار ہونے سے انکار کردیا اور من حیث القوم انگریز اور ہندو کو بتا دیا کہ مسلم لیگ ہی وہ جماعت ہے جو انکے لیئے موزوں ہے چنانچہ وہ مسلم لیگ کو کانگریس کے مقابلے میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت بنانے کی ان تھک جدوجہد میں قائد کے شریک کار بن گئے نتیجتا” کانگریس کے بزرجمہروں کے بس میں نہیں رہا کہ مسلمانوں کو مزید فریب دے سکیں یوں قائداعظم کی فراست اور شب وروز کی محنت سے ایک ایسی پر عزم قوم وجود میں آگئی جس کی مدد سے پاکستان معرض وجود میں آگیا۔