ولادیمیر پوتن

روس کے صدر ولادیمیر پوتن کا امریکی پالیسیوں، یوکرین کے مستقبل اور یورپ کے کردار پر اظہار خیال

ماسکو، یورپ ٹوڈے: روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں، یوکرین کی ریاستی خودمختاری کے مستقبل اور یورپ کے مذاکراتی عمل میں ممکنہ کردار پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔

روس 1 ٹی وی کے صحافی پاویل زاروبین کو دیے گئے انٹرویو میں پوتن نے یوکرین کے وسائل سے متعلق امریکہ-یوکرین معاہدوں پر خدشات کو مسترد کیا، صدر زیلنسکی کی قیادت پر تنقید کی اور ٹرمپ کی پالیسیوں کو عملی اور امریکہ کے مفاد میں قرار دیا، نہ کہ روس کے لیے فائدہ مند۔

’زہریلے‘ زیلنسکی اور یوکرینی ریاست

صدر پوتن نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو یوکرینی معاشرے کے لیے ایک ‘زہریلی شخصیت’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے غیر معقول احکامات، جو غیر واضح سیاسی مقاصد سے متاثر ہیں، غیر ضروری طور پر بھاری نقصانات، بلکہ تباہ کن نتائج کا سبب بنے ہیں۔

پوتن کے مطابق، زیلنسکی کی مقبولیت شدید گر چکی ہے اور وہ اقتدار کی بقا کے لیے امن مذاکرات سے گریز کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: “اگر مذاکرات شروع ہو جائیں تو مارشل لا جلد یا بدیر ختم ہوگا، اور جیسے ہی ایسا ہوگا، انتخابات ناگزیر ہو جائیں گے۔”

’عملی‘ ٹرمپ

صدر پوتن نے کہا کہ ٹرمپ یوکرین میں استحکام اور امن معاہدے کے لیے زیلنسکی کو ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق، ٹرمپ چاہتے ہیں کہ یوکرینی عوام متحد ہوں، اور یوکرینی ریاست کی بقا کے لیے بہتر حالات پیدا کیے جائیں۔

پوتن نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ ٹرمپ کی پالیسی روس کے حق میں ہے۔ انہوں نے کہا: “حقیقت یہ ہے کہ ہمیں زیادہ دلچسپی اس میں ہے کہ زیلنسکی اقتدار میں رہیں اور اس بدعنوان حکومت کو مزید نقصان پہنچائیں۔ لیکن یوکرین کی ریاست کو مستحکم کرنے کے لیے ایسے افراد کو اقتدار میں لانا ضروری ہوگا جو عوام کے اعتماد پر پورا اتریں۔”

یورپ کا کردار

پوتن نے کہا کہ یورپی سیاستدان یوکرین سے متعلق اپنے ماضی کے وعدوں کی وجہ سے جکڑے ہوئے ہیں اور ان کے لیے پالیسی میں بڑی تبدیلی ممکن نہیں۔ ان کے مطابق، یورپی قیادت کی جانب سے حالیہ سفارتی معاملات پر ردعمل جذباتی اور غیر عملی تھا۔

انہوں نے واضح کیا کہ روس کو یورپی ممالک کی مذاکرات میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں، بلکہ وہ اسے خوش آئند سمجھتا ہے، لیکن دیگر غیر یورپی ممالک، جیسے کہ برکس ممالک، بھی اس عمل میں حصہ لے سکتے ہیں۔

امریکہ کے ساتھ فوجی اور تجارتی تعلقات

پوتن نے کہا کہ وہ ٹرمپ کی دفاعی بجٹ میں کمی کی تجویز کو مثبت نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا: “اگر امریکہ اپنے دفاعی اخراجات 50 فیصد کم کرے اور ہم بھی ایسا کریں، تو چین بھی اس عمل میں بعد میں شامل ہو سکتا ہے۔”

تجارتی پالیسی پر گفتگو کرتے ہوئے پوتن نے امریکی پابندیوں کو غیر منصفانہ اور عالمی تجارت کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ہر ملک اپنی معیشت کے مفاد میں فیصلے کرتا ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ روسی اور امریکی کمپنیاں بعض بڑے منصوبوں پر بات چیت کر رہی ہیں، تاہم اس کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

’نایاب معدنیات‘ پر تعاون

نایاب معدنیات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پوتن نے کہا کہ روس اس شعبے میں خود کفالت پر توجہ دے رہا ہے اور امریکہ کے ساتھ شراکت داری کے لیے بھی تیار ہے، بشرطیکہ امریکی کمپنیاں یا حکومت اس میں دلچسپی لیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ روس کے پاس یوکرین کے مقابلے میں کہیں زیادہ نایاب معدنی ذخائر موجود ہیں اور وہ اس میدان میں عالمی سطح پر ایک رہنما ملک ہے۔

پوتن کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی سیاست میں امریکہ، یوکرین اور روس کے درمیان تعلقات ایک نازک موڑ پر ہیں اور سفارتی کوششوں کے نئے امکانات تلاش کیے جا رہے ہیں۔

برطانوی وزیر خارجہ کا غزہ اور یوکرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش، فوری اقدامات کا مطالبہ Previous post برطانوی وزیر خارجہ کا غزہ اور یوکرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش، فوری اقدامات کا مطالبہ
ماہ رمضان: روح کے لیے ایک الہامی ریفریشر کورس Next post ماہ رمضان: روح کے لیے ایک الہامی ریفریشر کورس