
ٹرمپ کا نیا ورلڈ آرڈر: عالمی سیاست میں انقلابی تبدیلیاں

ملک محمد شفیق “دی یورپ ٹوڈے” کے منیجنگ ایڈیٹر ہیں۔ آپ تاریخ، سیاسیات اور عصری امور کے ماہر ہیں۔ انہیں قومی مسائل، بی آر آئی، چین، ماحولیاتی تبدیلی اور وسطی ایشیا پر ایک مستند تجزیہ کار کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
امریکی سیاست میں ڈونالڈ ٹرمپ کی واپسی ایک نئے عالمی نظام کے نفاذ کا عندیہ دے رہی ہے۔ 20 جنوری کو امریکہ کے صدارتی منصب پر تبدیلی کے باوجود، حقیقت میں امریکہ کی پالیسیوں میں ایک جوہری تغیر رونما ہو چکا ہے۔ وہائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی دوسری مدت کی افتتاحی تقریب دراصل ایک نئے عالمی نظم کے آغاز کا اعلان تھی۔ ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے محض چند ہفتوں میں امریکی پالیسیوں کو ایک نیا رخ دے دیا ہے، جس کے اثرات نہ صرف داخلی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سفارتی تعلقات پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
یوکرین پر امریکی دباؤ اور سفارتی بے اعتنائی
28 فروری کو وہائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں یوکرینی صدر کے ساتھ امریکی صدر کی ملاقات، سفارتی آداب کی صریح خلاف ورزی کے طور پر دیکھی گئی۔ ٹرمپ کا رویہ اس ملاقات میں جارحانہ تھا، اور اسے ایک ڈپلومیٹک شو کے بجائے ایک عوامی تماشہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ نے یوکرین کو پہلے روس کے خلاف جنگ پر اکسایا، اور اب وہی امریکہ زیلنسکی پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ ٹرمپ کا برتاؤ یہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ روایتی امریکی خارجہ پالیسی کو یکسر تبدیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
زیلنسکی کی بے توقیری اور امریکی رویے میں تبدیلی
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی، جو چند سال قبل مغربی دنیا کے لیے ہیرو کا درجہ رکھتے تھے، اب امریکی سیاست میں غیر اہم ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ان کے ساتھ جس طرح کا رویہ اختیار کیا، اس کی مثال امریکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ امریکی نائب صدر نے زیلنسکی پر مسلسل یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ان کا ملک امریکی امداد پر منحصر ہے، اور انہیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اس واقعے کے بعد، روس میں جشن منایا گیا، اور روسی حکام نے طنزیہ انداز میں کہا کہ زیلنسکی خوش قسمت رہے کہ انہیں مزید بے عزتی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
امریکی خارجہ پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی
ٹرمپ کی پالیسیوں میں واضح جھکاؤ روس کی جانب دیکھا جا رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یورپی اتحادی امریکہ کو کمزور کر رہے ہیں، اور اسی لیے وہ روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے پر زور دے رہے ہیں تاکہ چین کو عالمی سطح پر تنہا کیا جا سکے۔ یہ پالیسی امریکی تاریخ میں ‘Reverse Nixon Policy’ کے نام سے جانی جا رہی ہے، جہاں نصف صدی قبل صدر نکسن نے سوویت یونین کو کمزور کرنے کے لیے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔ آج ٹرمپ وہی حکمت عملی روس کے ساتھ اپنا رہے ہیں۔
یورپی اتحادیوں کی تشویش
لندن میں یورپی ممالک کے سربراہان کی ایک اہم میٹنگ میں زیلنسکی کو یقین دلایا گیا کہ یورپ ان کے ساتھ کھڑا ہے، تاہم برطانیہ، فرانس، جرمنی سمیت دیگر ممالک ٹرمپ کی پالیسیوں سے شدید پریشان نظر آ رہے ہیں۔ واشنگٹن میں ٹرمپ کے قریبی حلقے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ زیلنسکی کے ساتھ ہوئی سخت رویے کی ملاقات کے بعد دنیا ٹرمپ کی قیادت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔
نتائج اور عالمی منظرنامہ
ٹرمپ کا امریکہ اب اپنی نئی خارجہ پالیسی کو دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کی حکمت عملی ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل کی طرف اشارہ کر رہی ہے، جہاں امریکہ کے مفادات کو ہر صورت مقدم رکھا جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ عالمی طاقتیں اس نئے ورلڈ آرڈر کو تسلیم کر لیتی ہیں، یا اس کے خلاف مزاحمت کے لیے کوئی حکمت عملی اپناتی ہیں۔