
عاطف توقیر کی نظم "رد” کا تبصرہ
نظم:رد
شاعر کا نام:عاطف توقیر
تبصرہ نگار:ڈاکٹر سعدیہ بتول حیدرؔ
رد
اے وادیٔ خشک و سبز پربت
تو اپنی خوشبو سے ڈر رہی ہے
ترے صحیفہ نما بدن پر
یہ کیسی آیت اتر رہی ہے
ترے فسوں ناک راستوں پر
گھنیری رت کی مسافتیں ہیں
فضائیں پہروں میں بٹ چکی ہیں
ہواؤں تک میں عداوتیں ہیں
سکوت زنداں کی پتلیوں پر
نگاہ تیرہ نظر کا دکھ ہے
ہر ایک روزن سے آتا جاتا
ادھر کا دکھ ہے ادھر کا دکھ ہے
فرشتگان وحی کے ہاتھوں
سے سارے الفاظ گر چکے ہیں
قلندران روایت رد
خود اپنے دیں سے ہی پھر چکے ہیں
بغاوتوں کے علم پہ کندہ
اطاعتوں کا نشان واقف
اصول گاہوں کے منبروں پر
شرائط حکم و شیخ و منصف
ترے تنفس کے پیش و پس پر
لبوں کی لغزش گواہ جیسے
تری جبیں پر اگی لکیریں
صف شکستہ سپاہ جیسے
سو اب فقط دن گزر رہے ہیں
صدائے زنجیر مستقل سے
نہ رونق نو نہ دھوپ کی لو
اتر گئی جان جیسے دل سے
شراب آنکھوں سے اگتا جھرنا
بھٹک کے رستہ سا بن رہا ہے
بڑھا تعدد سرور و مے کا
جنون دستک کو جن رہا ہے
اے وادیٔ خشک و سبز پربت
تو اپنی خوشبو سے ڈر رہی ہے
ترے صحیفہ نما بدن پر
یہ کیسی آیت اتر رہی ہے
تبصرہ:
عاطف توقیر کی نظم "رد” ایک علامتی اور استعاراتی نظم ہے جو ہمارے عہد کے فکری، سماجی اور روحانی زوال کو نمایاں کرتی ہے۔ اس نظم کا مرکزی استعارہ "وادیٔ خشک و سبز پربت” ہے، جو ایک طرف سرسبزی، خوشبو اور زندگی کی علامت ہے مگر دوسری طرف خشک سالی، ویرانی اور خوف سے لبریز ہے۔ اس سے شاعر نے وہ داخلی و خارجی کشمکش واضح کی ہے جس میں فرد اور معاشرہ دونوں مبتلا ہیں۔عاطف توقیر کی نظم "رد” فنی اور فکری سطح پر بہت گہری ہے۔ ہم اس کے دونوں پہلوؤں کو الگ الگ دیکھیں گے:
فنی پہلو
اس نظم کا اسلوب علامتی اور استعاراتی ہے۔ شاعر نے "صحیفہ نما بدن”، "تری جبیں پر اگی لکیریں ،صف شکستہ سپاہ جیسے” اور "شراب آنکھوں سے اگتا جھرنا” جیسے پُراثر استعارے تراشے ہیں، جو قاری کو فضا کی شدت کا براہِ راست احساس دلاتے ہیں۔نظم کی ابتدا اور اختتام ایک ہی مصرعے پر ہوتا ہے۔
؏ "اے وادیٔ خشک و سبز پربت تو اپنی خوشبو سے ڈر رہی ہے”
یہ تکنیک نظم کو گولائی اور دائرہ نما ساخت دیتی ہے جس سے اس کے پیغام کی گونج اور شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مصرعوں کے آہنگ اور صوتی تکرار سے موسیقیت قائم کی گئی ہے۔ نظم کے مناظر میں المیہ فضا ہے جو ہر شے پر اداسی اور شکست کا پردہ ڈال دیتی ہے لیکن ساتھ ہی اس میں احتجاج اور سوال کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔
۱-ہیئت ،بحر اور وزن:
- یہ نظم منظوم نظم ہے اور مربع شکل میں ہے۔یہ بحر” جمیل مربع سالم” میں کہی گئی ہے اور اس کا وزن "مَفاعلاتن، مَفاعلاتن” ہے۔
- اس بات کی اہمیت یہ ہے کہ شاعر نے جدید فکری مواد کو بھی عروضی سانچے میں ڈھالا ہے۔
- بحر کے تسلسل نے نظم کو موسیقیت اور لَے دی ہے، جس سے کلام کا اثر اور گہرا ہو جاتا ہے۔
۲- قافیے اور صوتی آہنگ:
یہ نظم پابند نظم ہے اور مربع شکل میں ہے۔شاعر نے صوتی تکرار اور داخلی ہم آہنگی سے ایک جمالیاتی ربط پیدا کیا ہے:
- "ادھر کا دکھ ہے، ادھر کا دکھ ہے” صوتی تکرار۔
- "ترے فسوں ناک راستوں پر ، گھنیری رت کی مسافتیں ہیں” حرفی تکرار (ف، س، ر کی صوتی ہم آہنگی)۔
- "صدائے زنجیر مستقل سے” مصرعے کی صوتی ساخت خود زنجیر کی جھنجھناہٹ کا احساس دیتی ہے۔
۳- حرفی تکرارکی صوتی ہم آہنگی:
حرفی تکرار کی صوتی ہم آہنگی "سے مراد یہ ہے کہ شاعر نے کچھ مخصوص حروف بار بار استعمال کیے ہیں تاکہ ایک خاص صوتی فضا اور موسیقیت پیدا ہو۔”ادھر کا دکھ ہے، ادھر کا دکھ ہے” جیسی تکرار نظم کے ردھم کو قائم رکھتی ہے اور بیانیہ میں شدت پیدا کرتی ہے۔”ز” اور "ر” کی تکرار ("زنجیر”، "زندان”، "نظر”) نظم کو صوتی سطح پر بھی گھٹن کی کیفیت میں ڈھال دیتی ہے۔” مثال کے طور پر:
- "فسوں ناک راستوں پر” یہاں ف اور س کی تکرار ہے۔
- "سکوت زنداں” یہاں س کی گونج ہے۔
- "ترے صحیفہ نما بدن پر” ، یہاں ص اور ف کی بازگشت ہے۔
- "صدائے زنجیر مستقل سے” ص،س اور ز کی آوازیں ایک تاثر بناتی ہیں۔
یہی بار بار کی تکرار قاری کے کان میں ایک ردھم پیدا کرتی ہے، جیسے ہلکی سی سرگوشی یا گونج، جو نظم کے مزاج (یعنی بوجھل، پراسرار اور کبھی کبھی خوفناک فضا) کو مزید ابھارتی ہے۔یعنی شاعر نے محض الفاظ کے معنی پر نہیں بلکہ ان کی آوازوں پر بھی کام کیا ہے تاکہ تاثر زیادہ گہرا ہو۔
۴-استعارات ،تشبیہات ،امیجز اور علامات:
نظم کی فنی خوبی اس کے استعارات ،تشبیہات ،امیجز اور علامات ہیں:
- "سکوت زنداں کی پتلیوں پر،نگاہ تیرہ نظر کا دکھ ہے” یہاں آنکھ اور زنداں کو ملا کر گھٹن اور بیزاری کو مجسم بنا دیا گیا۔
- "جبیں پر اگی لکیریں ،صف شکستہ سپاہ جیسے” انسانی چہرے پر لکیر کو شکستہ فوج کی صف سے تشبیہ دینا نہایت تازہ اور طاقتور امیج ہے۔
- "شراب آنکھوں سے اگتا جھرنا” یہ ایک تخلیقی اور غیر روایتی امیج ہے جو جذبات کی شدت کو بصری کیفیت میں بدل دیتا ہے۔”اورغم کو اشک اور سرور کے ساتھ جوڑتا ہے۔
- وادی، خوشبو، صحیفہ، آیت، زنجیر، شراب ،سب علامات ہیں جو مختلف ذہنی، روحانی اور سیاسی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔”صحیفہ نما بدن” وادی کو مذہبی کتاب کی علامت بنانا۔
۵- اسلوب زبان کا آہنگ:
- زبان علامتی اور شعری ہے۔سیدھی نثری بیانیہ نہیں۔
- زبان شعری، علامتی اور قدرے صوفیانہ ہے۔ "فرشتگانِ وحی، قلندرانِ روایت، اصول گاہوں کے منبر” جیسے تراکیب نظم کو فکری گہرائی دیتی ہیں۔گو زبان میں کہیں کہیں صوفیانہ اور مذہبی لَے جھلکتی ہے لیکن مقصد احتجاج ہے، جس سے اسلوب میں مزاحمتی وقار پیدا ہوا ہے۔
- ترکیبیں "صحیفہ نما بدن”، "قلندرانِ روایت”، "اصول گاہوں کے منبر” جیسے مرکبات نظم کو فکری اور تہذیبی پس منظر سے جوڑتی ہیں۔
۶- ساخت اور تسلسل:
نظم آغاز میں فطرت کے منظر سے چلتی ہے ("اے وادیٔ خشک و سبز پربت”)، پھر دھیرے دھیرے یہ منظر معاشرتی اور فکری زوال کی علامت میں بدل جاتا ہے۔درمیان میں "وحی”، "قلندر”، "شیخ و منصف” جیسے الفاظ نظم کو تہذیبی و دینی سیاق سے جوڑ دیتے ہیں۔آخر میں یہ نظم "زنجیر” اور "دل سے اترتی جان” پر منتج ہوتی ہے، جو ایک بوجھل فضا تو بناتی ہے مگر ساتھ ہی احتجاجی صدائے مسلسل کو قائم رکھتی ہے۔
۷- کلاسیکی اور جدید امتزاج:
ایک طرف بحر، مصرعہ بندی اور لَے کلاسیکی روایت کا تسلسل ہیں۔دوسری طرف علامتیں، سماجی احتجاج، مذہبی اداروں پر تنقید اور وجودی کیفیتیں مکمل طور پر جدید حسیت کی نمائندگی کرتی ہیں۔یہی امتزاج اس نظم کی سب سے بڑی فنی کامیابی ہے۔
۸- موسیقیت:
- نظم میں شعری بہاؤ، آہنگ اور سطر کی ترتیب میں گہری موسیقیت موجود ہے۔
- "تو اپنی خوشبو سے ڈر رہی ہے” کا تکرار آغاز و انجام پر ایک علامتی دائرہ بناتا ہے ،جیسے سوال وہیں آ کر رک گیا ہو جہاں سے چلا تھا۔
- نظم میں آہنگ اور مصرعوں کی ہم آہنگی ایک شعری ربط پیدا کرتی ہے۔ وقفوں اور تکرار سے موسیقیت ابھرتی ہے۔
۹- مزاج:
نظم کا مجموعی مزاج "المیہ” ہے، مگر اس المیے کے پس منظر میں "سوال” اور "مزاحمت” دونوں موجود ہیں۔
۱۰-طنز، رمز اور مزاحمتی لہجہ:
- شاعر کا لہجہ کہیں نوحہ خوان ہے، کہیں منقلب صوفی، اور کہیں مزاحم دانشور۔
- "قلندرانِ روایت رد، خود اپنے دیں سے پھر چکے ہیں” یہ خود ساختہ صوفیوں یا علماء پر گہرا طنز ہے۔
۱۱-تکرار اور علامتی دائرہ:
نظم کی ابتدا اور اختتام ایک ہی مصرعے سے ہوتی ہے ("اے وادیٔ خشک و سبز پربت ۔۔۔تو اپنی خوشبو سے ڈر رہی ہے”)، جو نظم کو دائرے کی شکل میں باندھ دیتا ہے۔ یہ تکنیک پیغام کی شدت کو دوگنا کر دیتی ہے۔
فنی اعتبار سے یہ نظم عروضی جلال، صوتی آہنگ، علامتی امیجز اور مزاحمتی اسلوب کی ایک کامیاب مثال ہے۔ شاعر نے کلاسیکی ہیئت کو اختیار کرتے ہوئے بھی فکر اور امیجز میں جدت پیدا کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نظم نہ صرف موضوع کے اعتبار سے اہم ہے بلکہ فنّی اعتبار سے بھی اپنی جگہ ایک مکمل اور مؤثر تخلیق ہے۔
فکری پہلو
یہ نظم ہمارے عہد کے داخلی و خارجی زوال کی علامت ہے۔ شاعر نے وادی، سبز پربت، صحیفہ، آیت، فرشتے، قلندر اور منبر جیسے استعاروں کے ذریعے ایک ایسا منظرنامہ تخلیق کیا ہے جس میں معاشرتی، مذہبی اور فکری بحران ایک دوسرے میں گتھے نظر آتے ہیں۔ "ہواؤں تک میں عداوتیں ہیں” اور "فضائیں پہروں میں بٹ چکی ہیں” جیسے مصرعے اس تقسیم اور دشمنی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ہماری اجتماعی فضا پر چھائی ہوئی ہے۔ اسی طرح "فرشتگانِ وحی کے ہاتھوں سے سارے الفاظ گر چکے ہیں” محض روحانی اقدار کے زوال ہی کی نہیں بلکہ سچائی اور صداقت کی موت کی علامت بھی ہے۔ "قلندرانِ روایت رد” دراصل ان مذہبی و فکری پیشواؤں پر طنز ہے جو روایت کے نام پر خود اپنے اصولوں سے منحرف ہو چکے ہیں۔ اس نظم کا فکری کینوس اس بات پر مرکوز ہے کہ سماج میں اقدار کی پامالی اور سچائی کی شکست نے فرد کو بھی مایوس اور شکستہ دل کر دیا ہے۔
۱- نظم کا مرکزی خیال:
نظم ایک زوال پذیر معاشرے، اس کی روحانی، فکری اور تہذیبی شکست و ریخت کی تصویر پیش کرتی ہے۔ شاعر ایک ایسی وادی سے خطاب کرتا ہے جو کبھی "خوشبو” رکھتی تھی یعنی معنویت، صداقت، اور روحانیت کی علامت تھی مگر اب وہ خود اپنی خوشبو سے "ڈر رہی ہے”۔
۲- انکار اور بغاوت کا بنیادی تصور:
عنوان "رد” بذاتِ خود کسی ایسے رویے کی طرف اشارہ ہے جو رائج الوقت نظام، روایت یا فکر کو مسترد کرتا ہے۔ نظم میں جگہ جگہ یہ کیفیت جھلکتی ہے کہ شاعر محض احتجاج نہیں کر رہا بلکہ جمی ہوئی اقدار اور مسلط کردہ فکری سانچوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔”قلندرانِ روایت رد، خود اپنے دیں سے ہی پھر چکے ہیں” ، یہاں مذہبی و سماجی روایت کے نمائندوں کی منافقت اور دوغلے پن پر ضرب لگائی گئی ہے۔
۳-روایت اور وحی کا زوال:
شاعر نے ایک اہم نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ وہ الفاظ جو کبھی وحی کی علامت تھے، وہ اب اپنا جلال کھو چکے ہیں:
؎ "فرشتگانِ وحی کے ہاتھوں سے سارے الفاظ گر چکے ہیں”
یہ محض مذہبی استعارہ نہیں بلکہ اس سے مراد وہ سچائیاں ہیں جو کبھی معاشروں کو جِلا دیتی تھیں، مگر اب طاقت اور مفاد پرستی کے بوجھ تلے مسخ ہو گئی ہیں۔
۴- وجودی ،روحانی ،شخصی کرب اورتھکن:
"ادھر کا دکھ ہے، اُدھر کا دکھ ہے” ہر طرف رنج ہی رنج، داخلی و خارجی انتشارکی ترجمانی ہے۔ "سو اب فقط دن گزر رہے ہیں، صدائے زنجیر مستقل سے” زندگی بے جان اور غلامی سے تعبیر ہو گئی ہے۔”نہ رونق نو نہ دھوپ کی لو ۔۔۔ اتر گئی جان جیسے دل سے” فرد کی مایوسی، حوصلوں کی شکست اور اندرونی زوال کا عکس ہے۔
پوری نظم کی فضا ایک قید خانہ ہے۔ "سکوت زنداں”، "صدائے زنجیر”، "ادھر کا دکھ ہے ادھر کا دکھ ہے” ، یہ سب استعارے اجتماعی گھٹن اور فرد کی کچلی ہوئی زندگی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔یہ ایک وجودی کرب بھی ہے: قید صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی اور فکری ہے۔
شاعر نے اجتماعی مسائل کو فرد کے اندر اتار دیا ہے۔ "لبوں کی لغزش”، "جبیں پر اگی لکیریں”، "صف شکستہ سپاہ جیسے” ، یہ سب داخلی شکست و ریخت کی تصویریں ہیں۔گویا پوری کائنات کی گھٹن فرد کے وجود میں اتر کر اس کے چہرے، سانس اور آنکھوں میں ظاہر ہو رہی ہے۔
۵- طاقت اور مذہب کی آمیزش پر تنقید:
"بغاوتوں کے علم پہ کندہ ، اطاعتوں کا نشان واقف” ،”اصول گاہوں کے منبروں پر ،شرائط حکم و شیخ و منصف”، یہاں شاعر نے اس جبر پر روشنی ڈالی ہے جہاں بغاوت بھی اطاعت کے نشان تلے دبا دی جاتی ہے۔ مذہب، سیاست اور عدلیہ کے نمائندے سب جبر کے اوزار بن گئے ہیں۔
۶-اجتماعی ،سماجی و تہذیبی بحران:
"ترے صحیفہ نما بدن پر، یہ کیسی آیت اتر رہی ہے” یہاں شاعر روحانی گمراہی یا مذہبی استحصال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ "فرشتگانِ وحی کے ہاتھوں سے سارے الفاظ گر چکے ہیں” یہ الہام کے خاتمے یا سچائی کی گمشدگی کی علامت ہے۔نظم میں معاشرے کے بگڑتے حالات کا نوحہ جھلکتا ہے۔”ہواؤں تک میں عداوتیں ہیں” سے دشمنی اور کدورت کا غلبہ ظاہرہوتاہے۔”فرشتگان وحی کے ہاتھوں سے سارے الفاظ گر چکے ہیں” وحی و الہام کی قدریں، سچائی اور صداقت جیسے الفاظ اپنی حرمت کھو بیٹھے ہیں۔”قلندرانِ روایت رد، خود اپنے دیں سے ہی پھر چکے ہیں” روایت پرست خود اپنے اصولوں سے منہ موڑ چکے ہیں۔
۷- فطرت اور وجود کا باہمی تضاد اور شکست:
"فضائیں پہروں میں بٹ چکی ہیں، ہواؤں تک میں عداوتیں ہیں” معاشرتی تقسیم اور روحانی پراگندگی کو ظاہر کرتی ہے۔”اطاعتوں کا نشان بغاوت کے علم پر کندہ” نظامِ اقدار میں اُلجھاؤ، جہاں فرمانبرداری خود بغاوت کا نقاب اوڑھ لیتی ہے،کی علامت ہے۔شاعر نے وادی، سبز پربت، خوشبو، رت اور فضاؤں کے ذریعے فطرت کے حسن کو دکھایا، لیکن اس کے ساتھ ہی خوف، عدوات اور اندھیروں کو بھی ساتھ رکھا ہے۔ گویا فطرت اور وجود کا باہمی تضاد ظاہر کیا گیا ہے۔”اے وادیٔ خشک و سبز پربت ، تو اپنی خوشبو سے ڈر رہی ہے” یہاں خوشبو بھی خوف زدہ ہے، یعنی حسن بھی غیر محفوظ ہو چکا ہے۔
۸-مزاحمت اور سوالیہ لہجہ:
شاعر کے ہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ اطاعت کے جھنڈے کیوں بغاوتوں پر لہرائے جا رہے ہیں، اور اصولوں کے منبر کیوں ذاتی مفاد اور حکمراں طبقے کے ہاتھوں یرغمال ہو گئے ہیں۔یہ نظم داخلی و خارجی کشمکش کا بیان ہے۔ شاعر نے ایک "وادی” کا استعارہ لیا ہے جو ایک طرف سبز و شاداب ہے اور دوسری طرف خشک و ویران۔ اس وادی کی "خوشبو سے ڈرنا” گویا اپنی اصل شناخت، اپنی پاکیزگی اور اپنے حسن سے خوفزدہ ہو جانا ہے۔یوں نظم ایک اجتماعی زوال، مذہبی و سماجی تضادات، اور فرد کے وجودی دکھ کی گواہی بن جاتی ہے۔
"رد” محض ایک نظم نہیں بلکہ معاشرتی زوال، مذہبی منافقت اور فرد کی شکستگی پر گہرا احتجاج ہے۔ شاعر نے تصوف، روایت اور جدید فکری سوالوں کو علامتی پیکر میں باندھ کر ایک ایسا شعری کینوس تخلیق کیا ہے جس میں قاری اپنے دور کے دکھوں کی جھلک صاف دیکھ لیتا ہے۔
۹- ایک مزاحمتی اور امید پر مبنی شعور:
یہ نظم مایوسی کے اندر بھی زندہ شعور اور بیداری کی علامت ہے اور یہی تو اصل "رد” ہے ۔ یعنی انکار بذاتِ خود امید کا اظہار ہے۔دیکھیے:
؎ "اے وادیٔ خشک و سبز پربت تو اپنی خوشبو سے ڈر رہی ہے”
یہاں خوشبو کا ڈر جانا محض گھٹن نہیں بلکہ یہ اشارہ ہے کہ خوشبو اب بھی موجود ہے بس اسے دبایا جا رہا ہے۔ خوشبو کا زندہ رہنا امید ہے۔
؏ "ادھر کا دکھ ہے،ادھر کا دکھ ہے”
یہ دہرا دکھ اس بات کی علامت ہے کہ انسان اب بھی دیکھ رہا ہے، محسوس کر رہا ہے۔ مردہ دل دکھ کو پہچانتا ہی نہیں۔
؎ "شراب آنکھوں سے اگتا جھرنا بھٹک کے رستہ سا بن رہا ہے”
یہ منظر سراسر امید کا ہے۔ آنکھوں کا جھرنا بھٹکا ضرور ہے مگر بہاؤ میں ہے، اور بہاؤ ہی زندگی کی علامت ہے۔یعنی نظم کا بیانیہ اندھیرے اور گھٹن سے ضرور بھرا ہوا ہے، لیکن اس گھٹن کے مقابل ایک مزاحمتی رویہ اور "رد” کا شعور موجود ہے، جو عین زندگی اور امید کا استعارہ ہے۔یہ نظم محض یاسیت نہیں بلکہ ایک مزاحمتی اور امید پر مبنی شعور رکھتی ہے۔ شاعر احتجاج کرتا ہے، سوال اٹھاتا ہے، اور یہی احتجاج مستقبل میں روشنی کی تلاش کی بنیاد ہے۔
۱۰-فکری اہمیت:
یہ نظم دراصل جدید اردو شاعری میں اس کرب اور بغاوت کی نمائندگی کرتی ہے جو استبدادی قوتوں، مذہبی منافقت، روایت پرستی اور وجودی گھٹن کے خلاف پیدا ہوا۔ اس میں اقبال کی طرح اصلاحی جوش نہیں، بلکہ ایک گہری مایوسی اور احتجاجی کیفیت ہے جو اسے جدید حسیت کے قریب لاتی ہے۔
مجموعی جائزہ
عاطف توقیر کی نظم "رد” ایک تہذیبی ماتم ہے جہاں شاعر نہ صرف زوال کو محسوس کرتا ہے بلکہ اس کی جڑوں کو پہچانتا ہے۔ یہ نظم جدید اردو نظم کے اعلیٰ نمونوں میں شمار کی جا سکتی ہے جس میں خیال کی گہرائی، زبان کی بالیدگی اور روحانی اضطراب کی جھلک ملتی ہے۔
"رد” ایک ایسی نظم ہے جو فرد اور معاشرے دونوں کے دکھ کو علامتی اور استعاراتی زبان میں بیان کرتی ہے۔ اس میں فیض احمد فیض کی طرح احتجاجی روح بھی جھلکتی ہے اور ناصر کاظمی جیسی وجودی مایوسی بھی محسوس ہوتی ہے۔ مگر توقیر نے انہیں اپنے منفرد علامتی پیرائے میں ڈھال کر معاصر اردو نظم کو ایک الگ اور بھرپور آواز عطا کی ہے۔
زیرِ نظر نظم اپنے اندر معنویت اور فنکارانہ کمال کے کئی جہان سمیٹے ہوئے ہے۔ شاعر نے وادی کے استعارے کو مرکزی حیثیت دے کر زندگی کے تضادات، انسانی کرب اور اجتماعی صورتِ حال کو اجاگر کیا ہے۔ "خشک و سبز پربت” کا پیکر بظاہر متضاد عناصر کو ایک ساتھ لا کر قاری کو اس مکالمے میں شریک کرتا ہے جہاں خوف اور خوشبو ایک ہی فضا میں سانس لیتے ہیں۔ اس فنی چابک دستی سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ زندگی صرف جمود اور بے سمتی کا نام نہیں بلکہ اس میں امید کا ایک ایسا بیج بھی پوشیدہ ہے جو ہر لمحہ پھوٹنے کے لیے بے قرار رہتا ہے۔
فکری سطح پر یہ نظم اپنے عہد کے مسائل اور انسانی داخلی کشمکش کا عکاس ہے۔ شاعر نے فضاؤں کے بٹنے، ہواؤں میں عداوت اور سکوتِ زنداں کی تصویر کھینچ کر ایک ایسا منظرنامہ تشکیل دیا ہے جو بظاہر مایوس کن دکھائی دیتا ہے۔ تاہم اس کے پس منظر میں ایک غیر مرئی طاقت موجود ہے جو قاری کو یاد دلاتی ہے کہ زندگی رُکتی نہیں، دن بہرحال گزرتے رہتے ہیں اور جستجو کا عمل جاری رہتا ہے۔ یوں یہ نظم یکسر یاسیت پر مبنی نہیں بلکہ اس کے بطن میں امید اور استقامت کا پہلو پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔
فنی اعتبار سے یہ نظم” بحر جمیل مربع سالم” میں کہی گئی ہے جس نے اسے ایک باقاعدہ عروضی ساخت عطا کی۔ قافیے اور ردیف کی موجودگی نے نظم میں داخلی ہم آہنگی اور صوتی موسیقیت پیدا کی۔ استعاراتی زبان اور علامتی پیکروں نے نظم کے داخلی تناظر کو مزید گہرائی بخشی۔ "صحیفہ نما بدن”، "سکوت زنداں کی پتلیاں” اور "شراب آنکھوں سے اگتا جھرنا” جیسے استعارات محض لفظی آرائش نہیں بلکہ فکری تجربے کی عکاسی ہیں۔ یہ تراکیب قاری کو محض خارجی دنیا میں نہیں بلکہ داخلی شعور کی تہوں میں بھی لے جاتی ہیں۔
مجموعی طور پر یہ نظم اپنی فکری معنویت اور فنی صناعی دونوں اعتبار سے اہم ہے۔ اس میں زندگی کے تضادات کو فنکارانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے مگر ان تضادات کے پس منظر میں امید اور جستجو کا پیغام واضح طور پر موجود ہے۔ یہی پہلو اس نظم کو نہ صرف اپنے عہد کی صدائے احتجاج بناتا ہے بلکہ اسے آفاقی سطح پر بھی معنویت عطا کرتا ہے۔
آخر میں، "رد” نہ صرف داخلی شکستگی اور وجودی کرب کی عکاسی کرتی ہے بلکہ اجتماعی زوال اور مذہبی و سماجی منافقت کے خلاف ایک احتجاجی صدا بھی بلند کرتی ہے۔ اس طرح یہ نظم فیض احمد فیض کی مزاحمتی شاعری اور ناصر کاظمی کی وجودی مایوسی دونوں کی روایت سے جڑتی ہے، لیکن اپنی علامتی اور صوفیانہ زبان کے سبب ایک منفرد اور معاصر آواز کے طور پر سامنے آتی ہے۔
حاصل بحث:
اس نظم کا بنیادی حاصل یہ ہے کہ شاعر نے عصرِ حاضر کے تضادات، سماجی جمود اور داخلی کرب کو نہایت فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے۔ بظاہر منظرنامہ مایوسی اور بے سمتی سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے، لیکن اس کے باطن میں امید اور جستجو کا پہلو پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ یہی تضاد نظم کی اصل معنویت کو تشکیل دیتا ہے۔ فنی اعتبار سے "بحر جمیل مربع سالم "نے اسے ایک مربوط ڈھانچہ عطا کیا، جب کہ استعارات، علامتی پیکروں اور صوتی ہم آہنگی نے نظم کو گہرائی اور تاثیر بخشی۔ اس طرح یہ نظم اپنے عہد کی عکاسی بھی کرتی ہے اور آفاقی معنویت بھی رکھتی ہے، کیونکہ یہ دکھاتی ہے کہ انسان مشکلات کے باوجود اپنے وجودی سفر کو جاری رکھتا ہے۔
ڈاکٹر سعدیہ بتول حیدرؔ