گڈریا

نفرت پالنے والا گڈریا

گڈریے یا  چرواہے کی زندگی محنت، جدوجہد اور صبر و استقامت کا نہ ختم ہونے والا قصہ ہے۔ صبح کی پہلی کرن سے لے کر رات کے سناٹے تک وہ کھیتوں، کھلیانوں اور خطرناک پہاڑوں میں اپنے ریوڑ کے ساتھ چلتا ہے۔ پتھر اس کے قدموں کو زخمی کرتے ہیں، ہوائیں اس کی جلد کو چیرتی ہیں، مگر وہ ڈٹا رہتا ہے کیونکہ اس کی بکریوں اور بھیڑوں کی زندگی اسی پر منحصر ہے۔ وقت کے ساتھ چرواہے اور اس کے ریوڑ کے درمیان ایک عجیب قربت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی لاٹھی کے اشارے پر بھیڑوں کا رُخ بدل جاتا ہے، اس کی آواز کے نرم لہجے پر وہ رک جاتی ہیں۔ وہ ان کی افزائش کرتا ہے، ان کی حفاظت کرتا ہے اور اپنی آسائش کو ان کے لیے قربان کر دیتا ہے۔ اس کا اختیار ظلم پر نہیں بلکہ شفقت پر قائم ہوتا ہے، کیونکہ سچا چرواہا جانتا ہے کہ اس کی قدر انہی جانوں کی حفاظت میں ہے جو اس کے سپرد کی گئی ہیں۔

مگر کچھ لوگ اس عظیم تصور کو مکروہ عزائم کے لیے بگاڑ دیتے ہیں۔ کچھ خود کو قوموں کے چرواہے سمجھ بیٹھتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں وہ محض فریب کار ہوتے ہیں۔ وہ کروڑوں انسانوں کو ایک ریوڑ سمجھتے ہیں، جسے جہاں چاہیں ہانک سکتے ہیں۔ وہ اقتدار کو ملکیت اور قیادت کو غلبہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ چرواہے کی لاٹھی کو وہ ظلم کے ڈنڈے میں بدل دیتے ہیں۔ یہی وہ المیہ ہے جو ہمیں اپنی سرحد کے اُس پار دکھائی دیتا ہے، جہاں امن کی ٹھنڈی ہوا کو بار بار دشمنی کی چنگاریوں میں بدلا جاتا ہے۔

بھارت، اچھے ہمسایہ تعلقات کی نعمت کو اپنانے کے بجائے اکثر نفرت کی آگ بھڑکانے کا انتخاب کرتا ہے۔ اس کی سیاست بار بار ایک ہی نمونہ دہراتی ہے؛ جیسے ہی انتخابات قریب آتے ہیں، نئے تماشے رچائے جاتے ہیں، نئے ولن تخلیق کیے جاتے ہیں اور دشمنی کے نئے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ اور اگر یہ تماشہ کمزور پڑنے لگے، اسکرپٹ ناکام ہونے لگے تو سب سے آسان نسخہ پاکستان کے ساتھ مصنوعی تنازع کھڑا کرنا سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک بھیانک ڈرامہ ہے، ایک گھناونا حربہ ہے، مگر اتنی بار دہرایا گیا ہے کہ انسانیت بھی اس بے حیائی پر شرما جائے۔

بھارتی قیادت خود کو جنوبی ایشیا کا ’’چوہدری‘‘ سمجھتی ہے — محلّے کا بدمعاش، جسے کوئی للکار نہ سکے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ چھوٹی قوموں کو ڈرا دھمکا سکتے ہیں، عالمی قوانین کو روند سکتے ہیں اور اپنے عوام کو جھوٹی شان کے نعروں پر بھیڑ کی طرح ہانک سکتے ہیں۔ ان کی نظر میں ایک ارب پینتالیس کروڑ انسان حق، امید اور عزت رکھنے والے فرد نہیں بلکہ محض ریوڑ ہیں۔ اس وہم میں انہوں نے بھیڑیں نہیں پالی بلکہ ایسی بھٹکی ہوئی مخلوق پیدا کی ہے جو بیشتر نفرت اور تشدد پر جیتی ہے، اور پڑوسیوں پر ہی نہیں بلکہ اپنے ہی ہم وطنوں پر بھی جھپٹ پڑتی ہے۔

یہ زہریلا گڈریا تو کھیل کو بھی اپنی انتقام کی آگ میں جھونک چکا ہے، حالانکہ کھیل تو امن کا عالمی میدان ہے۔ بند دروازوں کے پیچھے پاکستانی اور بھارتی کھلاڑی مصافحے کرتے ہیں، کھانے کھاتے ہیں اور بھائی چارے کے لمحات جیتے ہیں، مگر میدان میں اترتے ہی چرواہے کی جنونیت سب پر حاوی ہو جاتی ہے۔ کرکٹ، جو پل بن سکتی تھی، ایک اور محاذ بن جاتی ہے جہاں دشمنی کو گھریلو تالیاں بٹورنے کے لیے کھیل بنایا جاتا ہے۔ سیاسی میدانوں میں  کی گئی نفرت کو اسٹیڈیمز تک برآمد کیا جاتا ہے اور تماشائی اسے فرضِ عین سمجھ کر آگے بڑھاتے ہیں۔ اور جب حقیقت آشکار ہوتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اصل میں ان کے رہنما ہی انہیں بھٹکا رہے تھے۔

مگر تاریخ نے اس چرواہے کو اس کی حدیں یاد دلا دی ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ایک مہم جوئی میں بھارت کی جارحیت کو پاکستان نے تیز اور فیصلہ کن جواب دے کر خاموش کر دیا تھا۔ وہ ایک دن، وہ ایک ہی دوا، اس کے وہم کا بخار اتارنے کے لیے کافی ثابت ہوئی۔ لیکن یادداشتیں چھوٹی اور تکبر جلد لوٹ آتا ہے۔ بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ کل جو گولی (دوائی)  دی گئی وہ نرم تھی، کل کو جو انجکشن مل سکتا ہے وہ کہیں زیادہ شدید ہوگا۔ اور پاکستان، پُرسکون مگر چوکس، ایسی کئی دوائیں اور انجکشن اپنے ذخیرے میں رکھتا ہے — اور یہ سب کچھ جنونی چرواہے کو ہوش میں لانے کے لیے کافی ہیں۔

سب سے بڑا المیہ  چرواہے کے تکبر میں نہیں بلکہ اس کے ریوڑ کی اذیت میں ہے۔ بھارت کے عام عوام — وہ مرد و عورت جو امن، ترقی اور عزت کے خواہاں ہیں — نفرت کے نعروں سے گمراہ کر دیے جاتے ہیں۔ انہیں سکھایا جاتا ہے کہ ہمسائے دشمن ہیں، بھائی نہیں؛ امن کمزوری ہے، طاقت نہیں۔ ان کے خواب سیاسی تماشوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے ہی رہنما کے پیچھے چل کر دشمنی کے جنگل میں دھکیل دیے جاتے ہیں، ان عزائم کی قیمت ادا کرتے ہیں جو ان کے اپنے نہیں۔

مگر یہ فریب ہمیشہ نہیں چلتا۔ تاریخ نے کبھی بھی نفرت کے چرواہوں کے لیے صبر نہیں دکھایا۔ سلطنتیں اسی تکبر پر ابھریں اور اسی پر ڈھیر ہوئیں۔ ظالم اپنی طاقت کے زعم میں اتراتے رہے، مگر بالآخر انصاف کی ہواؤں نے انہیں بہا کر تاریخ سے مٹا دیا۔ بھارت کا جنونی چرواہا بھی کچھ وقت اپنے کھیل کھیل لے گا، مگر انجام کار وہ بھی اپنے فریب کا نتیجہ بھگتے گا۔ نفرت کی آگ سب سے پہلے اسے ہی جلا ڈالے گی جو اسے بھڑکاتا ہے۔

سبق سیدھا اور صاف ہے، اگرچہ متکبر کے لیے ماننا مشکل ہے: سچی قیادت خدمت ہے، غلبہ نہیں۔ اصل چرواہا اپنے ریوڑ کے لیے قربانی دیتا ہے؛ جھوٹا چرواہا اپنے ریوڑ کو خود پر قربان کرتا ہے۔ اگر بھارتی رہنما پہلا راستہ اپنالیں تو جنوبی ایشیا امن، خوشحالی اور تعاون کا گلزار بن سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ دوسرے راستے پر ڈٹے رہے تو ان کا مقدر تنہائی، رسوائی اور تباہی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

چرواہے کو یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا اس کا بھیس پہچان چکی ہے۔ اس کی لاٹھی اب خوف نہیں بلکہ ترس پیدا کرتی ہے۔ اور جب حساب کا وقت آئے گا، جب اسے اپنی لگائی ہوئی آگ کا جواب دینا ہوگا، تو نہ کوئی فریب اسے بچا سکے گا، نہ کوئی نعرہ۔ جھوٹے چرواہے کی تقدیر ہمیشہ ایک جیسی ہوتی ہے؛ زندگی میں نفرت، تاریخ میں رسوائی، اور یادوں میں محو ہو جانا۔

شہباز شریف Previous post وزیراعظم شہباز شریف کا سُمُد غزہ فلوٹلا میں شریک پاکستانیوں کی باعزت شرکت کو خراج تحسین، فوری واپسی کا مطالبہ
ترکمانستان Next post ترکمانستان کے وزیر خارجہ رشید میرڈوف کی ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے ڈائریکٹر آرتور آندرِسیئک سے ملاقات