
پارلیمینٹیرینز کافی کارنر: قومی اسمبلی میں روایت اور جدت کا امتزاج
پارلیمانی عمارت کی خاموش عظمت میں کچھ خیالات محض ایوان میں ہونے والی بحث سے نہیں، بلکہ ان درمیانی خلاؤں میں جنم لیتے ہیں—جہاں آوازیں بغیر مائیکروفون کے گونجتی ہیں اور خیالات رسمی حدود کے بغیر بہتے ہیں۔ قومی اسمبلی پاکستان میں ایک ایسا ہی بامعنی اور دل آویز قدم اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر قیادت اٹھایا گیا ہے۔ تین بار منتخب ہونے والے یہ اسپیکر صرف تجربہ کار پارلیمنٹیرین ہی نہیں بلکہ بصیرت، تدبر اور ترقی پسند سوچ کے حامل رہنما ہیں۔ ان کی قیادت میں پارلیمنٹ صرف قانون سازی کا مرکز نہیں رہی بلکہ مکالمے، شائستگی اور شمولیت کے اقدار کا امین ادارہ بنتا جا رہا ہے۔
اسپیکر کی اصلاحات میں—پارلیمنٹ کی چھت اور پارکنگ پر شمسی توانائی کے پینلز کی تنصیب، پائیدار ترقی کے اہداف کے لیے سیکرٹریٹ کا قیام، خواتین پارلیمنٹرینز اور عملے کے بچوں کے لیے ڈے کیئر سینٹر کا آغاز—ایک اور انقلابی قدم پارلیمنٹیرینز کے لیے ‘کافی کارنر’ کا قیام ہے۔ بظاہر یہ ایک سادہ سی سہولت لگتی ہے، مگر درحقیقت یہ ایک گہرا پیغام لیے ہوئے ہے؛ کہ خیالات ہمیشہ تصادم سے نہیں، اکثر مکالمے سے جنم لیتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ کافی اور چائے خانوں نے ہمیشہ فکر و دانش، مکالمے اور حتیٰ کہ انقلابات کو جنم دیا ہے۔ سترہویں صدی کے انگلینڈ میں کافی ہاؤسز کو “پینی یونیورسیٹیز” کہا جاتا تھا، جہاں صرف ایک پینی کی چائے سے کوئی بھی دانشوروں، تاجروں، ادیبوں اور مفکرین سے تبادلہ خیال کر سکتا تھا۔ فرانس میں پیرس کے معروف کیفے جیسے ‘کافے دے فلور’ اور ‘لے دو میگو’ ژاں پال سارتر اور سِمون دی بوواغ کی فکری نشستوں کے امین تھے۔ ویانا کے کیفے ہاؤسز سگمنڈ فرائڈ، لیون ٹراٹسکی اور وٹگنسٹائن جیسے اذہان کی غیر رسمی گفتگو سے علم و فکر کی تحریکوں کی بنیاد بنے۔ برطانیہ کی دارالعوام میں ممبران ‘پارلیمنٹری ٹی روم’ کا رخ کرتے ہیں، جہاں جماعتی اختلاف سے بالاتر ہو کر غیر رسمی تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ امریکی کیپیٹل ہِل میں بھی کیفے اور لاؤنجز وہ جگہیں ہیں جہاں دو طرفہ اتفاق رائے کی پہلی چنگاری اکثر خاموش گفتگو سے جنم لیتی ہے۔
قومی اسمبلی میں کافی کارنر کا قیام اسی عالمی روایت کی توسیع ہے۔ جب سیاست تناؤ، تقسیم اور شور و غوغا سے بھرپور ہو جائے، تو ایسی جگہیں جہاں ممبرانِ پارلیمنٹ بغیر کیمروں، بغیر نوٹسز اور بغیر دباؤ کے آمنے سامنے بیٹھ سکیں، وہ محض سہولت نہیں بلکہ جمہوری تقاضا بن جاتی ہیں۔ ایسی فضا میں شائستگی پروان چڑھتی ہے، فہم پیدا ہوتا ہے، اور خاموشی میں سننے کی سفارتکاری پنپتی ہے۔ وہ وقت شاید دور نہیں جب قومی فیصلوں پر اتفاق رائے کسی زوردار تقریر سے نہیں بلکہ ایک پیالی چائے کے ساتھ ہونے والی سرگوشیوں سے جنم لے۔
پاکستان کا اپنا تاریخی ورثہ بھی اس روایت سے جڑا ہے۔ لاہور کا ‘پاک ٹی ہاؤس’، جو کبھی فیض احمد فیض، سعادت حسن منٹو اور حبیب جالب کی آماجگاہ تھا، محض چائے کا مرکز نہیں، مزاحمت اور ذہانت کا گہوارہ تھا۔ ‘شیزان’ ریستوران بھی ایک ایسا مقام تھا جہاں اعلیٰ ذوق، فکری گفتگو اور تہذیب ملتی تھی۔ کراچی کے ایرانی کیفے، کوئٹہ اور پشاور کے حجرے اور چائے خانے، سب ایسی ہی فضا کے حامل تھے—جہاں عنوانات کے بغیر دانش اُگتی تھی، اور غیر رسمی فیصلے مقامی روایتوں کو جنم دیتے تھے۔
سردار ایاز صادق جو کچھ پارلیمنٹ کے اندر کرنا چاہتے ہیں، وہ سیاست میں ایک بھولی بسری نفاست کی بحالی ہے؛ ایک ایسا مکالمہ جو ہنگامے سے نہیں، سکون سے مزین ہو۔ کافی کارنر محض چائے یا ایسپریسو کی جگہ نہیں، بلکہ غور و فکر کی ایک گہری علامت ہے۔ یہ نہ صرف پارلیمنٹرینز کو سیراب کرتا ہے بلکہ جمہوری روح کو یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ پارلیمنٹ کی اصل طاقت اس کی عمارت میں نہیں بلکہ اس تعلق میں ہے جو وہ اپنے ممبران کے مابین قائم کرتی ہے۔
اسپیکر کی دیگر اصلاحات بھی اسی خیال کا تسلسل ہیں—نگہداشت، ترقی اور شمولیت کی اقدار کو آگے بڑھاتے ہوئے۔ شمسی توانائی کا منصوبہ ماحولیاتی ذمہ داری کا مظہر ہی نہیں بلکہ خود انحصاری کا پیغام بھی ہے۔ ایس ڈی جیز سیکرٹریٹ پاکستان کی مقننہ کو عالمی ترقیاتی اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے۔ ڈے کیئر سینٹر اس بات کی دلیل ہے کہ ماں بننا کسی خاتون کی عوامی خدمت میں رکاوٹ نہیں بلکہ ایک قیمتی اثاثہ ہے۔
تاہم ان تمام اقدامات میں کافی کارنر ایک نادیدہ دھاگہ ہے—انسانی ربط کا دھاگہ—جو اگر بخوبی بُنا جائے، تو پارلیمانی شائستگی کی چادر بن جاتا ہے۔ جب دنیا شور میں ڈوب جائے، اور تقسیم مزید گہری ہو جائے، تو ایسے سکون کے مقامات بیش قیمت بن جاتے ہیں۔ سردار ایاز صادق نے پارلیمنٹ کے قلب میں ایسا مقام تراش کر ثابت کیا کہ قیادت صرف حکم دینے کا نام نہیں بلکہ ایسی فضا تشکیل دینے کا نام ہے جہاں دوسروں کو سوچنے، بولنے اور اختلاف کرنے کا حق میسر ہو—شائستگی کے ساتھ۔
آخر میں، جس طرح پاک ٹی ہاؤس کے شاعروں کا ماننا تھا کہ “ایک مکالمہ دنیا بدل سکتا ہے”، ویسے ہی قومی اسمبلی کے نئے کافی کارنر میں ہونے والی کوئی گفتگو جمہوریت کو صرف کارآمد ہی نہیں بلکہ باوقار بھی بنا سکتی ہے۔ کیونکہ جب ارکانِ پارلیمنٹ صرف مباحثہ نہیں بلکہ سننا بھی سیکھتے ہیں، تو پھر وہ بہتر حکمرانی بھی کرتے ہیں۔ اور یہی—کسی بھی زبان میں—ترقی کی اصل خوشبو ہے۔