
سوات میں طوفانی بارشوں کے بعد سیلابی ریلے سے 10 افراد جاں بحق، متعدد لاپتہ
سوات، یورپ ٹوڈے: سوات میں جمعہ کے روز شدید مون سون بارشوں کے باعث دریائے سوات اور دیگر ندی نالوں میں پانی کی سطح میں اچانک خطرناک حد تک اضافے سے کم از کم 10 افراد جاں بحق ہو گئے، جب کہ متعدد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) نے علاقے میں سیلاب کی صورتحال کو “انتہائی خطرناک” قرار دیا ہے۔
ریسکیو حکام اور عینی شاہدین کے مطابق دریائے سوات میں طغیانی کے باعث سیلابی ریلہ bypass روڈ کے قریب ایک پتھریلی جگہ پر موجود 19 سیاحوں کو بہا لے گیا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ امدادی ٹیموں نے صرف تین افراد کو زندہ بچا لیا، جبکہ دن کے اختتام تک 10 افراد کی لاشیں نکالی گئیں۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ پانی کی سطح اچانک بلند ہوئی اور سیاحوں کو چند لمحوں میں گھیر لیا، انہیں سنبھلنے کا موقع نہ ملا۔ متاثرین کا تعلق دو خاندانوں سے تھا جو سیر و تفریح کی غرض سے سیالکوٹ اور مردان سے سوات آئے تھے۔
ریسکیو 1122 نے ضلعی انتظامیہ اور مقامی پولیس کے تعاون سے لاشوں کو سیدو ٹیچنگ اسپتال منتقل کیا۔ جاں بحق افراد کی شناخت عمدا (18)، محمد ایان (7)، روبینہ (45)، شرمین (16)، تثمین (18)، ایما (10)، اور میراب (17) کے طور پر ہوئی جن کا تعلق سیالکوٹ سے تھا، جبکہ مردان سے تعلق رکھنے والے دو افراد کی شناخت فرمان اور ایشیال کے نام سے ہوئی۔
ضلعی انتظامیہ نے ہنگامی صورتحال نافذ کرتے ہوئے عوام کو دریا کے قریب جانے سے سختی سے منع کر دیا ہے۔ امدادی ٹیمیں اہم مقامات پر تعینات کر دی گئی ہیں، جب کہ غوطہ خور ٹیمیں بھی سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن میں شریک ہیں۔
PDMA کے مطابق درجنوں افراد تاحال متاثرہ علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں، جب کہ مام دھیرئی، غالیگے اور سوات کے دیگر مقامات پر کئی افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 18 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ چیف سیکریٹری شہاب علی شاہ کے مطابق مجموعی طور پر 75 افراد پھنسے ہوئے تھے جن میں سے 58 کو ریسکیو کیا جا چکا ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی ہدایت پر صوبائی حکومت نے ایک خصوصی فلڈ سیل قائم کر دیا ہے، جبکہ PDMA نے پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ کے ضلعی انتظامیہ کو ممکنہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے الرٹ جاری کیا ہے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے اس المناک واقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہوئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کو مقامی اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کی ہدایت کی ہے۔
دریں اثناء NDMA کے نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (NEOC) نے ایک نیا موسمی الرٹ جاری کیا ہے جس کے مطابق خیبرپختونخوا کے متعدد اضلاع بشمول چترال، سوات، ایبٹ آباد، مانسہرہ، پشاور، بنوں اور وزیرستان میں مزید گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش کا امکان ہے۔ آئندہ 48 گھنٹوں کے دوران پنجاب اور سندھ میں بھی وسیع پیمانے پر مون سون کی سرگرمی متوقع ہے، خاص طور پر کراچی، حیدرآباد، سکھر، تھرپارکر، بدین، عمرکوٹ اور دیگر اضلاع میں شدید بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ بالائی اور وسطی پنجاب میں تیز ہوائیں اور موسلا دھار بارش، جبکہ شہری علاقوں میں اربن فلڈنگ اور پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ظاہر کیا گیا ہے۔
تفریحی سفر، المیہ بن گیا
ڈسکہ سے تعلق رکھنے والا ایک بڑا خاندان فضاگٹ کے مقام پر سیر و تفریح کی غرض سے موجود تھا کہ اچانک سیلابی ریلہ انہیں بہا لے گیا۔ متاثرہ خاندان کی سربراہی عبد الرحمان کر رہے تھے جن کے ہمراہ بہو روبینہ کوثر، نواسے عبد اللہ (15)، تثمین (21)، شرمین (19)، بیٹی فوزیہ، داماد محسن اور ان کی بیٹیاں میراب (17)، اجوا (15)، ایشال (13) اور انفال (9) شامل تھیں۔
فوزیہ کی بہن عائشہ، ان کے شوہر شہباز اور ان کے بچے ایما (12)، ایان (9)، زیان (5) اور زوہان (3) بھی سیلاب کی لپیٹ میں آ گئے۔
سیلاب کے وقت یہ گروپ دریا کے کنارے موجود تھا اور تیز ریلے نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مقامی رضاکاروں نے امدادی کارروائیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ بازیاب شدہ افراد میں میراب، اجوا، ایان (6) – ڈاکٹر شہباز کا بیٹا، ایک قریبی رشتہ دار، اور محسن کی سالی طوبینہ اسلام شامل ہیں۔
یہ سانحہ ڈسکہ میں غم کی لہر لے آیا ہے، جہاں پورے محلوں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ عثمان غنی نے متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کر کے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تعزیت کا اظہار کیا۔
سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے، جہاں شہریوں نے دریاؤں کے کنارے فوری حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی سیاحتی مقامات پر ہنگامی آگاہی اور قوانین پر عمل درآمد کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔