کشمیر

آزاد کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ گوجری کاقیام – قائم مقام صدرآزادکشمیرکوخراج تحسین

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق پوری دنیا میں 8,324 مادری اور علاقائی زبانیں وجودرکھتی ہیں جبکہ ان میں سے7,000 زبانیں باقاعدہ طورپر لکھنے پڑھنے اور بولنے میں استعمال کی جاتی ہیں لیکن ان میں سے بھی آدھی سے زیادہ زبانیں اپنے بولنے والوں میں کمی واقع ہونے کی وجہ سے تیزی سے اپنا وجود کھوتی جارہی ہیں۔ یونیسکو ہر سال مادری زبانوں کا عالمی دن اسی لیے مناتی ہے تا کہ زیادہ سے زیاد ہ لو گوں کو ان کی اپنی مادری اور علاقائی زبانوں کی طرف رجوع کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور روزمرہ کے معاملات میں اپنی زبان کے استعمال کی ترغیب دی جائے تاکہ ان زبانوں کو معدوم ہونے سے بچایا جاسکے۔ ماہرین کے خیال میں کثیراللسانی تعلمی نظام اپنانے سے جہاں بچوں کی تعلیمی سوجھ بوجھ، مؤثر معاشرتی وسماجی روابط کار اور صنفی مساوات میں بہتری پیداہوگی وہاں ان زبانوں کو لاحق خطرات کو بھی کم کیا جا سکے گا۔ پاکستان اور آزاد کشمیرکی سرکاری زبان اردو ہے جبکہ پاکستان میں اس وقت 77 سے زیادہ اور آزادکشمیر میں ایک درجن کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں پہاڑی، گوجری، کشمیری، ہندکو، ڈوگری، کنڈل شاہی، پنجابی، کوہستانی، بلتی، شینا، پوٹھوہاری اور پشتو شامل ہیں لیکن ان میں سے کشمیری، بلتی، شینا اور کوہستانی زبانوں کو اپنا وجود برقرار رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے جس کی بنیادی وجہ روزمرہ کے معاملات اور بنیادی تعلیمی مدارج میں ان زبانوں کا استعمال متروک ہونا ہے۔

اس خطرے کے سدباب اور ان زبانوں کو معدومیت سے بچانے کا بروقت احساس کرتے ہوئے قائم مقام صدر آزاد ریاست جموں وکشمیر چوہدری لطیف اکبر نے فوری طور پر تمام متعلقہ محکموں کے سربراہان کا ایک خصوصی اجلاس طلب کیا جس میں آزاد جموں وکشمیرکے عبوری آئین میں مادری زبانوں سے متعلقہ آرٹیکل 24 کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر مادری زبانوں کو ابتدائی جماعتو ں کے نصاب کا حصہ بنانے، کشمیری اور گوجری زبانوں کے شارٹ کورسز منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا چونکہ گوجری زبان نہ صرف آزادکشمیر بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیرکے ایک بڑے حصے میں بولی سمجھی اور لکھی جاتی ہے اور اس زبان کے شاعروں، ادیبوں اور لکھاری کی ایک بڑی تعداد اس زبان کی ترویج وترقی میں مصروف عمل ہے۔ اس زبان کی اہمیت کے پیش نظر آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی میں ایک چیئر قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا تاکہ اس زبان میں تحقیق و ترقی کے عمل کو مربوط انداز میں آگے بڑھایا جاسکے۔ اس اجلاس میں وائس چانسلر آزاد کشمیر یونیورسٹی، سیکریٹری ایلیمنٹری وسیکینڈری ایجوکیشن، چیئرمین ٹیکسٹ بک بورڈ، ناظم اعلیٰ تحقیق وترقی نصاب، ڈائریکٹرجنرل کشمیرکلچرل اکیڈیمی اور رجسٹرار آزاد کشمیر یونیورسٹی نے شرکت کی۔ اس اجلاس کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سیکریٹری ایلیمنٹری وسیکینڈری ایجوکیشن کی سربراہی میں ایک سب کمیٹی بھی قائم کرنے اور اس کے اراکین کے طور پر چیئرمین ٹیکسٹ بک بورڈ، ناظم اعلیٰ تحقیق وترقی نصاب، ڈائریکٹرجنرل کشمیر کلچرل اکیڈیمی اور رجسٹرار آزاد کشمیر یونیورسٹی کو شامل کرنے پر بھی اتفاق ہوا جبکہ ڈپٹی ڈائریکٹر کشمیر کلچرل اکیڈیمی کو اس کا سیکریڑی مقرر کیا گیا۔ یاد رہے کہ ماہ فروری میں میرپور میں بابائے گوجری حاجی رانا فضل حسین(تمغہ پاکستان اور صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی) کی پہلی برسی کی تقریب میں، جس کے مہمان خصوصی قائم مقام صدر ریاست چوہدری لطیف اکبر خود ہی تھے، سابق سیکریڑی آزاد کشمیر جناب منیر حسین چوہدری نے آزاد کشمیر یونیورسٹی میں گوجری زبان کی ترویج وترقی کے لیے ایک چیئر قائم کرنے کی متفقہ قرارداد پیش کی تھی جس کی پذیرائی کرتے ہوئے جناب قائم مقام صدر ریاست نے اس پر عملدرآمد کا فوری حکم صادر فرماتے ہوئے وائس چانسلر یونیورسٹی ہذا سے اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرنے کے بارے میں بھی کہا۔ پاکستان و آزادکشمیر کے علمی وادبی حلقوں اور تنظیموں نے مادری زبانوں کی ترویج و تحفیظ  کے لیے خصوصی اقدامات کرنے پر قائم مقام صدر آزاد ریاست جموں و کشمیر چوہدری لطیف اکبر کو خراج تحسین پیش کیا اس کے علاوہ صدارتی  تمغہ برائے حسن کارکردگی کے حامل بابائے گوجری حاجی رانافضل حسین تمغہ پاکستان کو گوجری زبان کے لیے بے پناہ خدمات پر خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا کہ ان کی ہی بدولت آج گوجری زبان بولنے والوں، اسے سمجھنے والوں اور اس زبان میں شاعری و نثر لکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو گوجری زبان کی ترقی و ترویج میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔

یہ بابائے گوجری کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ ان ہی کی کوششوں سے آج گوجری زبان ریڈیائی لہروں پر بھی اپنے سامعین کے کانوں میں رس گھول رہی ہے اور مادری زبانوں کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی اس میں گوجری زبان کو پاکستان کی دوسری زبانوں کے مقابل کھڑ ا کرنے میں بابائے گوجری کا کردار سنہری حروف میں لکھاجائے گا۔ علم و ادب سے متعلقہ حلقوں اور تنظیموں نے حکومت آزادکشمیر سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ضلع میرپور کے لڑکوں کے ایک ڈگری کالج کو بابائے گوجری اور میرپور کے ہی خواتین کے ایک ہائی سکول کو محترمہ حسین بی بی، جن کا تعلق مقبوضہ جموں کے علاقے راجوری سے تھا اور وہ گوجری زبان کی بہت عمدہ شاعرہ اور ادیبہ تھیں، کے نام سے منسوب کیا جائے اس کے علاوہ بابائے گوجری کے گھر کی طرف جانے والی سڑک کا نام بھی شاہراہ بابائے گوجری قرار دیا جائے۔ یقینا حکومت آزادکشمیر کے یہ اقدامات بابائے گوجری حاجی رانا فضل حسین کی علمی وادبی میدان میں دی جانے والی ان کی اعلیٰ خدمات کو بجا طور پر سراہے جانے کے مترادف ہوں گے۔ یہ اس بات کا بھی ایک ثبوت ہو گا کہ زندہ قومیں اپنے مشاہیر اور اپنے محسنوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرتیں بلکہ انہی کے روشن و تابناک کردار کو مشعل راہ بنا کر دنیا میں نیک نامی حاصل کرتی ہیں اور اقوام عالم میں بھی ممتاز مقام پر فائز ہوتی ہیں!!!

  ؎ فضل سپوت اجیہا سچڑا،  دنیا پر نہیں جمناں!!!    
       محشر توڑی لوڑوں،  بھاویں کسے تاریخ نہ لبھناں!!!
       میاں محمد آپ کرے گو فضل تیری نگہبانی!!! 
       لا پریت اجیہی محمد،  جگ وچ رہے کہانی!!!

بنوں کینٹ Previous post بنوں کینٹ میں فتنہ الخوارج کا حملہ ناکام
انڈونیشیا میں سعودی سفارتخانے کی جانب سے افطار عشائیہ کا اہتمام Next post انڈونیشیا میں سعودی سفارتخانے کی جانب سے افطار عشائیہ کا اہتمام