سفید پرندے

تبصرہ : “سفید پرندے کا نوحہ “

“سفید پرندے کا نوحہ (جنگ اور موت کی نظمیں)” ایک منفرد اور اثرانگیز عنوان ہے، جو کتاب کے موضوعات—جنگ، موت، اور المیے—کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ  ایک گہرے معنوں والی شاعری کا مجموعہ ہے، جس میں جنگ، موت، دکھ، اور انسان کی داخلی جنگوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ان نظموں میں جو مشترک موضوعات نظر آتے ہیں، وہ انسان کی پناہ گزینی، غیر معمولی دکھوں کی شدت، اور جنگ کے اثرات ہیں۔ کتاب میں نہ صرف جنگ کی حقیقتوں کو عیاں کیا گیا ہے، بلکہ اس کے اثرات کو بھی اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا اس میں اپنی داخلی جنگوں کو بھی پہچان سکتا ہے۔

کتاب کا تعارف:

کتاب ” سفید پرندے کا نوحہ ” کی نظموں میں موجود گہرائی، تاثر اور انسان کی داخلی کشمکش کا جو احوال پیش کیا گیا ہے، وہ نہ صرف اردو ادب کی موجودہ فضا سے ہم آہنگ ہے بلکہ انسانی جذبات، دکھ، اور جنگ کی حقیقتوں کو بیان کرنے کا ایک غیر معمولی طریقہ بھی ہے۔ اس کتاب میں مختلف  نظموں کے ذریعے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر نظم اپنی جگہ ایک الگ ہی دنیا پیش کرتی ہے، جہاں انسان کی جنگ، دکھ، اور موت کا سفر ایک تسلسل میں جاری رہتا ہے۔

کتاب کا مرکزی موضوع جنگ اور اس کے اثرات، انسان کے اندر چھپے ہوئے دکھ اور ان کی شدت کے گرد گھومتا ہے۔ نظم “موت کا نوحہ” سے لے کر “موت کے دکھ” تک، ہر نظم میں انسانی دکھوں، جنگ کی تباہ کاریوں، اور ان کے اثرات کو انتہائی دلگداز انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں جہاں ایک طرف موت کا شکار فاختہ اور اس کی آخری چیخیں ہیں، وہیں دوسری طرف ایک زخمی انسان کی داخلی کشمکش اور اس کا سفر بھی دکھایا گیا ہے۔

نظموں کی ساخت اور  خاص نقطہء نظر:

نظموں کی ساخت اور ان کی زبان میں ایک خاص نوعیت کی پیچیدگی ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ شاعرہ نے دکھ کو ایک ایسا رشتہ قرار دیا ہے جو کبھی نہیں ٹوٹتا، اور اس رشتہ کا اس قدر گہرائی سے تجزیہ کیا گیا ہے کہ قاری محسوس کرتا ہے کہ یہ دکھ، ان راستوں اور ان کی حقیقتوں کا حصہ ہیں جو انسان کی ذات کے اندر رچ بس چکے ہیں۔

کتاب میں ایک خاص نکتہ نظر بھی پیش کیا گیا ہے، جہاں جنگ اور اس کے اثرات کو نہ صرف ایک سیاسی یا تاریخی مسئلہ سمجھا گیا ہے، بلکہ انفرادی سطح پر بھی دکھ اور موت کا تجربہ کیا گیا ہے۔ اس میں انسانوں کی حالتِ زار، ان کے خوابوں کا ٹوٹنا، اور ان کی اندرونی جدوجہد کو واضح کیا گیا ہے۔ یہ نظمیں اس بات کی غمازی کرتی  ہیں کہ جنگ کی ہولناکیوں کے بعد انسان کی زندگی اور خواب کس طرح ملبے اور غم کے ساتھ بکھر جاتے ہیں۔

کتاب میں پیش کیے گئے موضوعات:

اس کتاب میں موجود تقریبا ساری نظمیں جنگ اور اس کی تباہ کاریوں کے سبب  پیدا ہونے والے مسائل ہیں۔جیسے کہ:

۱جنگ کی حقیقت اور اس کے اثرات: کتاب کی بیشتر نظموں میں جنگ کا تذکرہ ہے، جیسے “فاختہ کی موت کا مرثیہ”، “جنگ کھیل ہے”، “جب حملہ ہوا”، “بژ کے خواب”،”جنگ سے جڑی اک کہانی”،  “جنگ کے بعد ۔۔۔پہلی صبح اور” جنگ کے دنوں میں بارش کی دعا” وغیرہ ۔ نظم  “فاختہ کی موت کا مرثیہ”  سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے:

“بم باری کے دوران

بارڈر کے اس پارسے

 ایک زخمی فاختہ

 گرتی پڑتی

 اس طرف جا نکلتی ہے

 جہاں کبھی صبح نہیں ہوتی

رات ہی رہتی ہے

 رات بھی گہری سیاہ کالی

 جنگ کے مابعد اثرات میں لپٹی ہوئی بستی تھی شائد”(۱)

جنگ کی حقیقت کو پیش کرتے ہوئے شاعرہ  نے نہ صرف اس کے تشویشناک اثرات کو بیان کیا ہے بلکہ اس کی تباہی کا ایسا منظر پیش کیا ہے جس میں انسانیت کی تکالیف بے حد واضح ہوتی ہیں۔ فاختہ کی زخمی حالت اور اس کا سفر، دراصل جنگ کی غیر انسانی حقیقت کا ایک استعارہ ہے۔ یہاں تک کہ جنگ کے بعد کی ویرانی اور بے بسی، خون کے چھینٹے، اور اجڑے ہوئے علاقے ایک حقیقت کے طور پر سامنے آتی ہیں۔

۲-انسانی دکھوں کا تسلسل: کتاب میں دکھوں کے تسلسل اور ان کے مستقل ہونے کا گہرا تذکرہ کیا گیا ہے۔ “موت کے دکھ” اور “اخباری تراشوں  سے بنی  گئی اک نظم” اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ انسان کی زندگی میں دکھ ہمیشہ موجود رہتے ہیں اور یہ کبھی ختم نہیں ہوتے۔”موت کے دکھ” سے ایک اقتباس :

“سفر کی ریت راستوں کی آنکھوں سے بہتی ہے

تو دکھوں کے تلووں سے چمٹ جاتی ہے

 دکھ پھر سے رسنے لگتے ہیں

 روم روم سے پھوٹ پڑتے ہیں

 نہ میں تھکتی ہوں ،نہ دکھ

 نہ ہی راستے

 لیکن یہ بات ان میں سے کوئی بھی نہیں جانتا

حالانکہ وہ ایک دوجے کے

 سانجھی دار ہیں!”(۲)

  شاعرہ  نے دکھ کو ایک رشتہ اور راستے کے طور پر پیش کیا ہے جو کسی نہ کسی صورت میں انسان کی ذات میں موجود رہتا ہے۔ یہ دکھ ایک طویل سفر کی طرح ہیں، جو انسان کے جسم و روح کو مسلسل متاثر کرتے ہیں۔

نجمی منصور کی نظمیں اپنے  موضوع، استعارات، اور جذباتی شدت کے لحاظ سے  منفرد اور گہری ہیں۔مثلا جنگی خبروں پر نظم لکھنا کوئی نیا خیال نہیں، لیکن نجمہ منصور نے اسے جس ذاتی سطح پر لا کر محسوس کیا ہے، وہ اسے منفرد بناتا ہے۔ یہ نظم ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ جنگ نہ صرف زمینوں پر ہوتی ہے بلکہ انسان کے ذہن و دل پر بھی اثر ڈالتی ہے، اور اس کا بوجھ ایک عمر تک باقی رہتا ہے۔

یہ نظم موضوع کے اعتبار سے بہت پرکشش اور دلچسپ  ہے ۔ اس کا موضوع جنگوں کی وجہ سے  چار سو پھیلے غم اور درد و الم ہیں۔ دکھوں کی غماز   اس نظم “اخباری تراشوں سے بنی  گئی اک نظم”   کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

“آج

میں اخبار کے تراشے جمع کرتے کرتے

 بڑھاپے کی آخری سیڑھی پر کھڑی ہوں

 لفظ دھندلا رہے ہیں

 ابھی جنگ جاری ہے اور

اخبار کی شہ سرخیاں تسلسل سے مجھے گھور رہی ہیں

ان اخباری تراشوں کو مزید سنبھالنے کے بجائے

 میں سوچ رہی ہوں

کیوں نہ اب ان سے اپنی عینک کے شیشے صاف کیے جائیں

روزانہ کی بنیاد پر۔۔۔!”(۳)

یہ نظم ایک گہری فکری اور جذباتی شدت رکھتی ہے جو جنگ، میڈیا، اور انسانی بے بسی کو ایک نیا استعاراتی پیرایہ عطا کرتی ہے۔ شاعرہ نے “اخباری تراشے” کو بنیادی علامت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جنگ کے تسلسل، اس کے خوفناک اثرات، اور انسان کے بے بس ہونے کو بڑی چابکدستی سے بیان کیا ہے۔

۳-خاموشی اور تنہائی کی تصویر: کتاب میں “گھنی خاموشی” اور “رات کے گہرے سائے” جیسے استعارات کا استعمال کیا گیا ہے تاکہ دکھ اور موت کے درمیان کی خالی جگہ کو بیان کیا جا سکے۔ موت کے دکھوں کے بیچ میں خاموشی ایک غیر متوقع رکاوٹ بنتی ہے، جو پڑھنے والے کو شدت سے سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا واقعی دکھوں میں کوئی آخری سکون یا خاموشی آ سکتی ہے؟

۴-روحوں کی بے چینی:   نظم”بے چین اپاہج روحیں” میں شاعرہ نے ان لوگوں کی روحوں کی بے چینی کو بیان کیا ہے جو ظلم و جبر اور جنگ میں مر گئے ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

زخموں سے چور اپاہج روحیں

جن کے چہروں کی نیلاہٹ سے

اداسی کرب و حسرتیں جھانکتی ہیں

اپنے اپنے نہ ہونے کے حساب سے بے خبر

 کب سے اپنی اپنی تدفین کی منتظر ہیں مگر۔۔۔!”(۴)

ان سب  کی روحیں اب بھی اپنی تدفین کی منتظر ہیں اور ان کی موجودگی سکون کی متلاشی ہے۔ ان بے چین روحوں کی حالت انسانیت کے اخلاقی و اجتماعی بحران کو سامنے لاتی ہے، جو جنگ کے اثرات کی گہری نوعیت کو واضح کرتی ہے۔

۵-خوابوں کی ابدیت: یہ نجمہ منصور جنگ اور طاقت کی وحشت کو نہایت منطقی انداز میں مسترد کرتی ہیں اور جنگ کی تباہ کاریوں کے مقابلے میں خوابوں کی قوت کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے ابدی ہونے کا اعلان کرتی ہیں، جو فکری اور تخلیقی مزاحمت کی علامت ہے۔  ان کی نظم  “یہ دنیا ڈزنی لینڈ نہیں ہے”  سے ایک اقتباس:

“ٹینکوں کے نیچے انسان کچلے جا سکتے ہیں

مگر خواب نہیں

خواب ایک آنکھ سے دوسری آنکھ میں

دوسری آنکھ سے تیسری

اور پھر آنکھ در آنکھ سفر کرتے ہیں

کبھی نہیں مرتے”(۵)

یہ نظم درحقیقت ظلم کے خلاف ایک ادبی مزاحمت کی حیثیت رکھتی ہے۔شاعرہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ خواب ٹینکوں تلے روندے نہیں جا سکتے، وہ ایک آنکھ سے دوسری آنکھ میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور یوں فنا سے محفوظ رہتے ہیں۔

اسلوب اور تکنیک:

شاعرہ نے سادہ اور بلیغ اسلوب کا استعمال کیا ہے، جس میں استعارات، تشبیہوں، اور استعاروں کا خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔ ان نظموں کا لہجہ کبھی نرم ہوتا ہے، اور کبھی اس میں ایک شدت ہوتی ہے، جو پڑھنے والے کو دل کی گہرائیوں تک پہنچا دیتی ہے۔ ان نظموں کی سادگی میں ایک پیچیدگی چھپی ہوئی ہے، جو ان کے اثرات کو مزید گہرا کرتی ہے۔

نثری نظم کا جدید اظہار، منظرکشی اور لسانی تجربات:  یہ  کتاب نثری نظم کی بہترین مثال ہے، جہاں روایت سے ہٹ کر، بغیر کسی ردیف و قافیہ کے، براہ راست جذبات اور خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔نظموں کی تصویریت انتہائی طاقتور ہے، خاص طور پر نظم “موت کا نوحہ”۔ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

گدھ تنہا ملبے کے ڈھیر پر بیٹھا ہے

موت بھوک سے ساز باز کرتی ہے

موسی خدا کو دیکھتا ہے

خدا گدھ کو

گدھ بھوکی ننگی بچی کو

اور نظم۔۔۔۔

نظم ایڑیاں اٹھائے

خدا کو بچی کھچی ہڈیاں پیش کرتی ہے

جو بے نیازی سے آسمان پر

 لال پلنگ بچھائے بیٹھا ہے

اس گھڑی موت زار زار روتی ہے!

 اب خود کشی کون کرتا ہے

موسی ،موت یا خدا

کون جانے ؟”(۶)

اس نظم   کا   وہ لمحہ جب “گدھ بھوکی ننگی بچی کو دیکھ رہا ہے اور   خدا آسمان پر لال پلنگ بچھائے بیٹھا ہے—یہ منظر ایک سفاک حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔شاعرہ نے روایتی الفاظ کے بجائے ایسے الفاظ اور جملے استعمال کیے ہیں جو نظم کے المیے کو مزید گہرا کر دیتے ہیں، جیسے موت بھوک سے ساز باز کرتی ہے  اور نظم ایڑیاں اٹھائے خدا کو بچی کی کھچی ہڈیاں پیش کرتی ہے۔

نجمہ منصور کا مجموعہ کلام”سفید پرندے کا نوحہ ” ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جو انسانی تجربے کی گہرائیوں میں غوطہ لگاتا ہے۔ جنگ، دکھ، اور موت کے تصورات کے ذریعے، مؤلف نے ان موضوعات پر ایک نیا اور منفرد نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ کتاب میں پیش کی گئی شاعری نہ صرف جنگ کے اثرات کو بیان کرتی ہے بلکہ انسان کی اندرونی کیفیت، اس کے دکھ، اور اس کے راستوں کی گہری حقیقتوں کو بھی سامنے لاتی ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہے جو زندگی کی پیچیدگیوں کو سمجھنا چاہتے ہیں اور دکھوں کے ساتھ جیتنے کی کوشش میں ہیں۔

“سفید پرندے کا نوحہ “شاعرہ نجمہ منصور  کاایک گہرا اور پر تاثیر شعری مجموعہ ہے جو جنگ، موت، دکھ اور انسان کی اندرونی حالتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کتاب میں پیش کی گئی نظموں میں جنگ کی حقیقتوں، اس کے اثرات اور اس سے جڑی انسانی اذیتوں کو بے باکی سے بیان کیا گیا ہے۔ شاعرہ نے جنگ کے دوران ہونے والی تباہی، اس کے اثرات، اور ان سے متاثر ہونے والے انسانوں کی حالت کو واضح کیا ہے۔ کتاب میں خاص طور پر موت اور اس کے دکھوں کے بارے میں بات کی گئی ہے، جو جنگ اور تباہی کے بعد انسان کی اندرونی جنگ کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔

نجمہ منصور کی شاعری میں انسان کی اذیت، تکلیف، اور دکھ کی شدت کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کی نظموں میں جنگ کے اثرات، زخمی روحیں، بے چین زندگی اور موت کے بیچ میں انسانی وجود کا خلا نمایاں ہوتا ہے۔ “فاختہ کی موت کا مرثیہ” میں ایک زخمی فاختہ کی کہانی کے ذریعے جنگ کی بے رحمی اور تباہی کی تصویر پیش کی گئی ہے، جبکہ “موت کے دکھ” میں دکھوں کی شدت اور ان کے انسان کی زندگی میں مستقل موجودگی کا بیان ہے۔

کتاب میں موت کی عکاسی اس انداز میں کی گئی ہے کہ وہ صرف ایک جسمانی واقعہ نہیں بلکہ ایک داخلی تجربہ بھی بن جاتی ہے۔ نظموں میں “خاموشی”، “تنہائی” اور “دھنی خاموشی” جیسے مفہوم جنگ کی تباہی اور انسانی روح کی بے بسی کو اجاگر کرتے ہیں۔ “بے چین اپاہج روحیں” میں شاعرہ نے ان روحوں کو بیان کیا ہے جو جنگ، ظلم اور جبر میں مر گئیں اور اب تک اپنے دفن ہونے کی منتظر ہیں۔

“سفید پرندے کا نوحہ” کی اس کاوش میں اس بات کی عکاسی کی گئی ہے کہ کس طرح انسان اپنی موجودگی کو جنگ کی اذیتوں اور دکھوں کے درمیان تلاش کرتا ہے، اور کس طرح اس کی روح مسلسل داخلی کشمکش میں مبتلا رہتی ہے۔یہ کتاب ایک طرح سے جنگ کے بعد کی تباہی، دکھ اور انسانی اذیتوں کا مرثیہ ہے، جو نہ صرف اس دور کے اثرات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ انسان کی فطری اضطراب اور ان کی روح کی اذیت کو بھی بیان کرتا ہے۔

مجموعی طور پر” سفید پرندے کا نوحہ” ایک دلی اور گہرا شعری اظہار ہے جو پڑھنے والے کو انسانیت کی جنگ، دکھوں اور اذیتوں کی حقیقتوں سے روبرو کراتا ہے۔ نجمہ منصور کی شاعری میں جنگ کی کربناک حقیقتوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، انسان کی گہری روحانی اور نفسیاتی کیفیتوں کا بھی تذکرہ ہے۔یہ کتاب ان قارئین کے لیے ایک اہم تحفہ ہے جو انسانی فطرت، جنگ کی حقیقتوں،  دکھ کی شدت اور انسانیت کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کورسک ریجن Previous post یوکرین کو کورسک ریجن میں بھاری نقصان، 60 ہزار سے زائد فوجی ہلاک: روس
چین اور برطانیہ کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کو مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور Next post چین اور برطانیہ کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کو مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور