بلاد الشام بحران میں: مسلم دنیا میں اتحاد کی ضرورت
شام کی صورتِ حال مشرقِ وسطیٰ اور وسیع تر اسلامی دنیا کے لیے ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے جس کے اثرات پاکستان جیسے ممالک تک بھی پہنچ رہے ہیں۔ تاریخی اور روحانی طور پر بلاد الشام کے نام سے معروف، شام اسلامی تاریخ اور روایات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی تقدس کا ذکر ملتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اسے “برکت والی زمین” کہا ہے۔ قرآن کی آیات مسجد الاقصیٰ کے گرد موجود زمینوں پر برکتوں کا ذکر کرتی ہیں، جن میں شام بھی شامل ہے، جو اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ یہ تاریخی اور روحانی وراثت شام کی موجودہ صورتحال کو اور زیادہ المناک بناتی ہے۔
شام، جو اسوریوں اور رومیوں سے لے کر اسلامی خلافتوں تک تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے، اموی خلافت کے دوران ایک ثقافتی، تجارتی اور حکومتی مرکز کے طور پر خوب پروان چڑھا۔ دمشق اس خلافت کا دارالحکومت رہا، جو اسلامی شناخت کو تشکیل دینے والا ایک عظیم الشان دور تھا۔ تاہم، یہ شاندار ورثہ آج شام کی موجودہ حالت، جنگ اور تقسیم کے شکار ملک سے بالکل مختلف نظر آتا ہے۔
شامی خانہ جنگی، جو ملکی مسائل کے باعث شروع ہوئی لیکن بین الاقوامی مداخلت نے اسے اور زیادہ پیچیدہ بنا دیا جس کے نتیجے میں اس ملک کو عالمی اور علاقائی طاقتوں کے مفادات کی جنگ کا میدان بنا دیا ہے۔ خارجی قوتوں نے فرقہ وارانہ تقسیم کا فائدہ اٹھایا اور اپنے اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف دھڑوں کی حمایت کی۔ یہ انتشار ہتھیاروں کے بنانے والوں، پراکسی ملیشیاؤں اور ان ممالک کو فائدہ پہنچا رہا ہے جو خطے کے سیاسی نقشے کو دوبارہ ترتیب دینا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال کے پیچھے ایک گہری سازش پوشیدہ ہے، جس کا مقصد عرب اتحاد کو کمزور کرنا اور بیرونی مداخلت کے خلاف مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔
شام کی حالت تنہا معاملہ نہیں بلکہ ان وسیع چیلنجز کی عکاسی کرتی ہے جن کا سامنا کئی اسلامی ممالک کو ہے۔ ان مسائل کی وجوہات تاریخی، سیاسی اور سماجی و اقتصادی عوامل میں گہری جڑیں رکھتی ہیں۔ ان عوامل کا تجزیہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ اسلامی دنیا کیوں ان بحرانوں کا شکار ہے اور مستقبل میں ایسے سانحات سے بچنے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں۔
ان عوامل میں سب سے اہم نوآبادیاتی وراثت ہے۔ استعماری طاقتوں نے اسلامی دنیا کے نقشے کو تقسیم کیا، مصنوعی سرحدیں کھینچیں، اور قوموں کو ایسے طریقے سے تشکیل دیا جو اکثر مختلف نسلوں اور فرقوں کو ایک ساتھ گروپ کر دیتا یا متحد کمیونٹیز کو تقسیم کر دیتا۔ اس عمل نے تنازعات کے بیج بوئے اور ان اقوام کو گہری تقسیم کے درمیان یکجہتی قائم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک اور اہم مسئلہ اسلامی ممالک میں مضبوط اور شفاف حکمرانی کی عدم موجودگی ہے۔ آمرانہ حکومتیں، بدعنوانی، اور سیاسی شمولیت کی کمی عوام میں عدم اطمینان اور ناراضگی پیدا کرتی ہیں۔ یہ حالات بغاوتوں کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں، جن کا بیرونی عناصر اپنے مفادات کے لیے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جمہوری طریقہ کار اور موثر اداروں کی کمی ان ممالک کو مزید غیر مستحکم بناتی ہے، جو اندرونی اور بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔
اسلامی ممالک کے اندر اور ان کے درمیان اقتصادی تفاوت بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کچھ ممالک قدرتی وسائل کی وجہ سے بے پناہ دولت رکھتے ہیں، جبکہ دیگر غربت اور پسماندگی کا شکار ہیں۔ یہ تفاوت ناراضگی پیدا کرتا ہے اور اسلامی دنیا کی اجتماعی مذاکراتی طاقت کو کمزور کرتا ہے۔ مزید برآں، قدرتی وسائل سے مالا مال ممالک کی دولت بیرونی مداخلت کو دعوت دیتی ہے، جہاں عالمی طاقتیں ان وسائل پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے حکومتوں کو سہارا دیتی یا تنازعات کو ہوا دیتی ہیں۔
فرقہ واریت اور مذہبی اختلافات کے غلط استعمال نے اسلامی دنیا کو تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اتحاد پر توجہ دینے کے بجائے، کچھ عناصر فرقہ وارانہ اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ اپنے مقاصد کو پورا کر سکیں، جس سے شیعہ اور سنی یا مختلف نسلی گروہوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ حکمت عملی اسلامی ممالک کو اندر سے کمزور کرتی ہے اور مشترکہ اہداف اور چیلنجز سے توجہ ہٹاتی ہے۔
اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کی کمی ایک اور اہم مسئلہ ہے۔ اگرچہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) جیسے پلیٹ فارم موجود ہیں، لیکن یہ اکثر رکن ممالک کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے میں مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اسلامی ممالک کے درمیان تنازعات، علاقائی عزائم، اور بیرونی طاقتوں کے اثرات اجتماعی کارروائی کو روک دیتے ہیں۔ ایک متحد محاذ کے بغیر، مسلم دنیا بیرونی سازشوں اور اندرونی اختلافات کا شکار رہتی ہے۔
اسلامی ممالک کو درپیش بحرانوں میں بیرونی مداخلت ایک مستقل موضوع ہے۔ عالمی طاقتیں اکثر جمہوریت کو فروغ دینے یا دہشت گردی سے لڑنے کے بہانے ان ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتی ہیں۔ حقیقت میں، ایسی مداخلت اکثر تنازعات کو بڑھاتی ہے، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرتی ہے، اور خطے کو غیر مستحکم کرتی ہے۔ شام، عراق، لیبیا، اور افغانستان اس بات کی واضح مثالیں ہیں کہ بیرونی مداخلت نے کس طرح طویل مدتی عدم استحکام کو جنم دیا۔
آخر میں، تعلیم، تکنیکی ترقی، اور اقتصادی تنوع میں سرمایہ کاری کی کمی نے کئی اسلامی ممالک کو عالمی مسابقت میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ جمود ترقی کے مواقع کو محدود کرتا ہے اور ان ممالک کو استحصال کے لیے بے بس چھوڑ دیتا ہے، جو عالمی سطح پر اپنی حیثیت منوانے میں ناکام رہتے ہیں۔
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے، اسلامی دنیا کو اتحاد اور خود انحصاری کو ترجیح دینی ہوگی۔ اس میں ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینا، اندرونی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا، اور شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانے کے لیے اداروں کو مضبوط بنانا شامل ہے۔ اقتصادی تعاون، تکنیکی جدت، اور تعلیم میں سرمایہ کاری بیرونی طاقتوں پر انحصار کم کرنے اور ایک مضبوط مستقبل کی تعمیر کے لیے اہم ہیں۔
شام کی صورتِ حال اور اسلامی دنیا کے دیگر بحران تقسیم اور عدم اتحاد کے نتائج کی تلخ یاد دہانی ہیں۔ یہ انصاف، ہمدردی، اور اجتماعی ذمہ داری کے اصولوں پر نئے عزم کا تقاضا کرتے ہیں جیسا کہ اسلامی تعلیمات میں بیان کیا گیا ہے۔ ان اصولوں کو اپنانے سے ہی مسلم دنیا اپنے چیلنجز پر قابو پا سکتی ہے اور امن و ترقی کے مشعل راہ کے طور پر اپنی جائز جگہ دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات شام کے بحران جیسے مسائل کے دوران عالمی مسلم برادری کو اپنے فرائض کی یاد دہانی کراتی ہیں۔ قرآن کی یہ یقین دہانی کہ “تنگی کے بعد آسانی ہے” ایک بہتر مستقبل کی امید دلاتی ہے—نہ صرف شام بلکہ ان تمام قوموں کے لیے جو امن، انصاف، اور ہم آہنگی کے لیے کوشاں ہیں۔