
بیلجیم کا قومی دن، جشن بھی اور قومی ترانہ بھی الجھن کا شکار
برسلز، یورپ ٹوڈے: آج بیلجیم میں قومی دن کی تقریبات زور و شور سے جاری ہیں۔ پریڈز، اسٹریٹ پارٹیز، اور بیئر کی فراوانی اس دن کی پہچان بن چکے ہیں۔ لیکن جب بات آتی ہے قومی ترانے کی گانے کی، تو شہریوں کو اکثر یہ سمجھ نہیں آتی کہ آخر گایا کیا جائے؟
اس کی وجہ بیلجیم کے قومی ترانے لا برا بانسون کی پیچیدہ تاریخ ہے، جو آج چار مختلف زبانوں میں موجود ہے۔ جب 1830 میں بیلجیم نے آزادی حاصل کی، تو پیرس سے آئے ایک جلاوطن فرانسیسی اداکار جینوال نے برسلز کے ایک کیفے L’Aigle d’Or کی بالائی منزل پر ترانے کے الفاظ لکھے، جبکہ نیچے سڑکوں پر انقلاب کی جنگ جاری تھی۔ اس کی دھن فرانسوا وان کامپین ہاؤٹ نے ایک پرانے شرابی گیت کی طرز پر بنائی۔
ابتدائی طور پر صرف فرانسیسی زبان میں گایا جانے والا یہ ترانہ بعد میں مختلف کمیٹیوں نے مختصر کر کے ایک بند تک محدود کر دیا اور اسے ڈچ اور جرمن زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔
اب ملک کے مختلف حصے مختلف الفاظ گاتے ہیں:
- والونیا میں گایا جاتا ہے: “Ô Belgique, ô mère chérie” – اے بیلجیم، اے پیاری ماں
- فلانڈرز میں: “O dierbaar België, o heilig land der vaad’ren” – اے پیارے بیلجیم، اے مقدس سرزمین
- جرمن زبان بولنے والے خطے میں: “O liebes Land, o Belgiens Erde” – اے پیارے وطن، اے بیلجیم کی سرزمین
برسلز کے Place Surlet de Chokier پر واقع La Brabançonne مجسمے کی بنیاد پر ترانے کا پہلا بند کندہ ہے، جو اب فرانسیسی کے ساتھ ساتھ ڈچ میں بھی درج ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب ایک بارہ مصرعوں پر مشتمل سہ لسانی ورژن بھی مقبول ہو رہا ہے، جو ڈچ، فرانسیسی اور جرمن زبانوں کو یکجا کرتا ہے۔
قومی ترانے کی پیچیدگی سیاسی سطح پر بھی دیکھی گئی۔ 2011 میں جب وزیر اعظم کے امیدوار یوس لیترم سے ایک انٹرویو میں قومی ترانہ گانے کو کہا گیا، تو انہوں نے غلطی سے فرانس کا ترانہ شروع کر دیا – اور پھر بھی وزیر اعظم بن گئے۔
صحافی برنارڈ بُلکے نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
“شاید یہ ہی بہتر ہے کہ بیلجیم میں قوم پرستی موجود نہیں۔ اگر ہم ترانہ نہ گا سکیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟”
آج کے دن، چاہے ترانے کی زبان جو بھی ہو، بیلجیم کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنی آزادی، تنوع اور یکجہتی کا جشن منا رہے ہیں۔