
بی ایل اے اور مکتی باہنی: دو نام، ایک ایجنڈا
اگرچہ میں 1965 کی پاک بھارت جنگ کے چار سال بعد پیدا ہوا، لیکن میرے بچپن کی کہانیاں اور مطالعے ہمیشہ ایک دلیر اور مضبوط پاکستان کی تصویر پیش کرتے رہے، جس نے ہر محاذ پر بھارت کو شکست دی۔ یہ جنگ شجاعت اور عسکری حکمت عملی کا مظہر تھی۔ تاہم جنگ کا میدان صرف آغاز تھا۔ شکست خوردہ بھارت نے کھلم کھلا حملے کی بجائے خفیہ چالوں کا سہارا لیا۔ وہ ایک ایسے ‘پراکسی وار’ کی طرف بڑھا جس نے چند سالوں میں پاکستان کے مشرقی بازو کو الگ کر دیا اور بنگلہ دیش وجود میں آ گیا۔ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دشمن کی نیت پر کبھی بھروسہ نہ کیا جائے، خاص طور پر اس دشمن پر جس کی شناخت ہی دشمنی پر قائم ہو۔
تقریباً چھ دہائیوں بعد، پاکستان ایک بار پھر اسی مکروہ سازش کا سامنا کر رہا ہے۔ اس بار، 7 مئی 2025 کو، بھارت نے “آپریشن سندور” کے نام پر پاکستان پر جارحیت کی جس کا جواب پاکستان نے “آپریشن بنیان المرصوص” کے جذبے سے دیا، اور دشمن کو سفید جھنڈا لہرانے پر مجبور کر دیا۔ مگر اس بار بھی، شکست خوردہ بھارت نے وہی پرانی چال دہرائی—پراکسی وار۔ فرق صرف یہ ہے کہ خطہ بدل گیا ہے۔ جس طرح ماضی میں بنگالی قوم پرستی کو ہوا دی گئی، اب اسی چالاکی سے بلوچ قوم پرستی کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ نام الگ ہیں، کردار ایک جیسے۔ حکمت عملی وہی پرانی؛ لسانی تقسیم کو ہوا دینا، وفاق کے خلاف بداعتمادی پیدا کرنا، اور علیحدگی کے نام پر مسلح بغاوت کو فروغ دینا۔
یہ محض قیاس آرائی نہیں، بلکہ اعدادوشمار خود بولتے ہیں۔ بلوچستان کے محکمہ داخلہ کی حالیہ ششماہی رپورٹ کے مطابق، دہشت گردی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں 501 دہشت گردی کے واقعات پیش آئے جن میں 257 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 133 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے، جبکہ 492 افراد زخمی ہوئے جن میں 238 سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات میں 45 فیصد اضافہ ہوا جبکہ غیر مقامی آبادکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں 100 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
آبادکاروں پر 14 مختلف حملوں میں 52 افراد صرف نسلی تعصب یا وابستگی کے شبہے میں قتل کیے گئے اور 11 زخمی ہوئے۔ بم دھماکوں، دستی بم حملوں، بارودی سرنگوں اور راکٹ حملوں جیسے 81 واقعات میں 26 افراد جاں بحق اور 112 زخمی ہوئے۔ عام شہریوں پر 39 حملے کیے گئے جن میں 11 افراد جاں بحق اور 29 زخمی ہوئے۔ سب سے خوفناک واقعات میں دو الگ الگ ٹرین حملے شامل تھے جن میں 29 معصوم مسافر اپنی جانوں سے گئے۔ حتیٰ کہ انسانیت کی خدمت کرنے والے بھی محفوظ نہ رہے—ایک پولیو ورکر کو نشانہ بنا کر شہید کیا گیا۔ مواصلاتی نظام کو مفلوج کرنے کے لیے موبائل ٹاورز پر 9 حملے کیے گئے جن میں 2 افراد زخمی ہوئے۔
یہ بے ترتیب واقعات نہیں، بلکہ ایک منظم بغاوت کی نشانیاں ہیں، جس کا مقصد پاکستان کو اندر سے کمزور کرنا ہے۔ مکتی باہنی، جو مشرقی پاکستان کی نام نہاد “آزادی کی تحریک” تھی، دراصل ایک منظم، بیرونی امداد یافتہ بغاوت تھی۔ بھارت کے “آپریشن جیک پاٹ” کے تحت تربیت یافتہ اور مسلح مکتی باہنی نے گوریلا حربوں، گھات لگا کر حملوں، تخریب کاری، اور ساحلی علاقوں پر چھاپوں میں مہارت حاصل کی، جس سے پاکستانی افواج شدید دباؤ میں آ گئیں۔ بھارتی خفیہ ادارے ‘را’ اور نیول انٹیلیجنس کا کردار کوئی راز نہیں تھا۔ اسرائیل کی مداخلت بھی موجود تھی، جو اسلحہ کی فراہمی کے بدلے سفارتی فائدے حاصل کرتا رہا۔ درحقیقت، یہ پاکستان کو توڑنے کی ایک بین الاقوامی مہم تھی۔ اس تحریک کو سیاسی ایندھن عوامی لیگ نے فراہم کیا، بالخصوص شیخ مجیب الرحمٰن جنہوں نے طویل عرصہ سے خودمختاری بلکہ علیحدگی کی مہم چلائی۔ 1971 میں مجیب کی گرفتاری کے بعد ان کے حامیوں نے “مجیب باہنی” کے نام سے ایک علیحدہ عسکری گروہ تشکیل دیا جو باغی کارروائیوں میں مزید براہ راست شامل رہا۔
2015 میں بنگلہ دیش کے دورے کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 1971 کے واقعات میں بھارت کے کردار کو خود تسلیم کیا۔ ان کا بیان “ہم ایک ساتھ لڑے، ساتھ قربانیاں دیں، اور ساتھ جیتے”—اس تاریخی حقیقت کو بے نقاب کر گیا جسے دہائیوں سے دبایا گیا تھا۔ یہ اعتراف صرف جنوبی ایشیا تک محدود نہ رہا بلکہ آج بھی پورے خطے کو بھارتی مداخلت کی پالیسیوں کا سامنا ہے۔
بی ایل اے اور مکتی باہنی کے درمیان مماثلتیں چونکا دینے والی حد تک یکساں ہیں۔ بی ایل اے جسے 2000 کی دہائی میں باضابطہ طور پر تشکیل دیا گیا، پرانے بلوچ علیحدگی پسند نظریات سے متاثر ہو کر اسی طرز کی غیر متوازن جنگ لڑ رہا ہے۔ آج ان کا ہدف چینی باشندے، سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے، اور پنجابی آبادکار ہیں، لیکن مقصد وہی پرانا ہے—پاکستان کو لسانی نفرت کے ذریعے توڑنا اور قومی یکجہتی کو سبوتاژ کرنا۔ ان کی سوچ بلوچ قوم پرستی اور سیکولرازم کے نقاب میں چھپی ہوئی ہے، لیکن اس میں نسلی صفائی اور منصوبہ بند دہشت گردی کی بو آتی ہے۔
پاکستان نے مسلسل ‘را’ پر بی ایل اے کی پشت پناہی کا الزام لگایا ہے، اور اس کے شواہد بھی پیش کیے ہیں۔ 2016 میں بھارتی بحریہ کے افسر کلبھوشن یادیو کی بلوچستان سے گرفتاری نے ان الزامات کو تقویت بخشی۔ اس کے اعترافی بیان میں بتایا گیا کہ کس طرح بھارتی خفیہ ایجنسی بلوچ عسکریت پسندوں کو مالی اور عسکری امداد فراہم کرتی رہی۔ اطلاعات کے مطابق بی ایل اے کے زخمی دہشت گردوں کو بھارت میں علاج اور دیگر سہولیات بھی دی جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے مشرقی پاکستان کے باغیوں کو تربیتی کیمپ اور پناہ گاہیں مہیا کی گئی تھیں، آج بھی بلوچ علیحدگی پسندوں کو خفیہ پناہ دی جا رہی ہے۔
سب سے افسوسناک پہلو شہریوں پر بڑھتی ہوئی دہشت گردی ہے۔ بی ایل اے نے آزادی کے نام پر غیر بلوچ برادریوں بالخصوص پنجابیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ معصوم مزدور، انجینئرز اور تاجر صرف اپنی شناخت کی بنیاد پر مارے جا رہے ہیں—جو اس تحریک کی سیاسی مزاحمت کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرتا ہے اور نسلی نفرت کو بے نقاب کرتا ہے۔ سی پیک، جو پاکستان کے معاشی مستقبل کی کلید ہے، اب ایک میدانِ جنگ بن چکا ہے—جہاں چینی ماہرین کی ہلاکتیں صرف اسلام آباد یا بیجنگ کو نہیں بلکہ پورے خطے کو پیغام دے رہی ہیں۔
ہم بیرونی ہاتھ کو مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں، اور اکثر اوقات ایسا کرنا درست بھی ہے، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہم نے خود ایسے شگاف پیدا ہونے دیے۔ بعض انفرادی اور اجتماعی غفلت یا نااہلی نے بھی ان باغی جذبات کو پنپنے دیا۔ مگر نقصان ہمیشہ پاکستان کا ہوا ہے۔ یہ ہماری سرزمین ہے جو خون آلود ہوتی ہے، ہمارے شہری ہیں جو شہید ہوتے ہیں، اور ہماری یکجہتی ہے جو خطرے میں پڑتی ہے۔
1971 میں اور آج بھی دشمن نے سرحد پار سے نہیں، بلکہ ہمارے لوگوں کے دل و دماغ کو نشانہ بنایا۔ یہی اصل چیلنج ہے۔ پاکستان مزید غفلت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ جنگ صرف زمین کی نہیں، بلکہ قوم کی روح کی جنگ ہے۔
تاریخ کو دوبارہ اپنے خاموش تماشائی بن کر نہ دہرائیں۔ ہمیں چوکس، متحد اور تاریخ کے سبقوں سے سیکھنے والا بننا ہوگا۔ کیونکہ اگر آزادی کی قیمت مسلسل چوکسی ہے، تو غفلت کی قیمت قومی انتشار ہے۔