
یوم نیلہ بٹ ۔۔۔ جرأ ت وعظمت کا نشان
نیلہ بٹ آزاد جموں و کشمیر کے ضلع باغ میں ایک خوبصورت سیاحتی مقام ہے جو سطح سمندر سے 6000 فٹ بلند ہے اور یہ باغ شہر31 سے جبکہ دھیرکوٹ سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ میں اس مقام کو ایک منفرد اور لازوال حیثیت حاصل ہے جہاں سے 23 اگست 1947ء پہلی گولی چلا کر تحریکِ آزادئ کشمیر کا باقاعدہ آغاز کیا گیا اور جس شخصیت کو یہ اعزاز حاصل ہوا وہ سردار محمد عبدالقیوم خان ہیں جنہیں بجاطور پر ان کی بیمثال جرأت و بہادری پر ان کی قوم کی طرف سے متفقہ طور پر مجاہد اول کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ نیلہ بٹ کی اس پہاڑی چوٹی سے بلند ہونے والی اس للکار سے پہلے ڈوگرہ راج میں صرف سیاسی جلسے جلوسوں کا رواج ہی تھا لیکن یہ پہلی مسلح بغاوت تھی اور جس سے ریاست کے دوسرے مسلمانوں میں بھی ایک نیا عزم و حوصلہ پیدا ہوا جس نے آگے چل کر پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
19جولائی1947ء کو کشمیری مسلمانوں نے اپنی منزل “الحاق پاکستان” کا تعین کر لیا تو اپنے عوام کی خواہشات کا احترام کرنے کے بجائے مہاراجہ نے مسلمانوں کو خائف کرنے اور انہیں اپنے ارادوں سے باز رکھنے کے لیے ڈوگرہ فوجوں کو پوری ریاست میں پھیلا دیا اور پڑوس کی ریاستوں سے ہندو شدت پسند تنظیموں کے مسلح جتھوں کو بھی ریاست میں بلا کر ہرطرف قتل و غارت کی اجازت دے دی جس پر مسلمانوں کو بھی اپنے دفاع کے لیے مجبوراً ہتھیار اٹھانا پڑے۔ جب 17 اگست 1947ء کو حدبندی کمشن کے سربراہ سر ریڈ کلف کی بددیانتی سے صرف ایک تحصیل پٹھانکوٹ میں ہندو اکثریت ہونے کی وجہ سے مسلم اکثریت کا پورا ضلع گوداسپور بھارت کے حوالے کر دیا گیا تو کشمیریوں کو اس سازش کے بارے میں کوئی ابہام نہ رہا کہ اب انہیں ڈوگروں کے بعد ہندوؤں کی مستقل غلامی میں دینے کا بندوبست کیا جا رہا ہے توریاست کے طول و عرض میں ڈوگروں سے نفرت کی ایک آگ سی بھڑک اٹھی ان حالات میں سردار محمد عبدالقیوم خان، جو خود فوجی تربیت یافتہ تھے، نے مقامی لوگوں اور سابقہ فوجیوں پر مشتمل مسلح دستے تشکیل دیے چونکہ اس زمانے میں ذرائع رسل و رسائل آج کی طرح ترقی یافتہ نہیں تھے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ پیغام رسانی بھی کافی وقت طلب کام تھا لیکن اس کے باوجود مجاہد اول کی جہاد کے لیے چلائی گئی اس پہلی گولی کی گونج پوری ریاست میں سنائی دی اور ہر طرف مجاہدین سروں پہ کفن باندھ کر نکلے اور اپنی کم تعداد اور کم وسائل کے باوجود ہر محاز پر کامیابی حاصل کرتے چلے گئے۔
سردار محمد عبدالقیوم خان جو خود اس کاروان آزادی کی کمان کر رہے تھے انہوں نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ اس جدوجہد پر اسلامی جہاد کا اثر غالب رہے۔ لڑائی میں چونکہ کسی قانون، قاعدہ یا انصاف کا کوئی تصور نہیں ہوتا لیکن انہوں نے اس بات کا باقاعدہ اہتمام کیا کہ مجاہدین جنگ کے دوران اخلاقیات کا خاص طور پر خیال رکھیں، بلاوجہ کسی پر ہاتھ نہ اٹھائیں اور نہ ہی بزرگوں، عورتوں، بچوں اور غیر مسلح غیرمسلموں کو نقصان پہنچائیں اور ان کی حفاظت کا معقول انتظام کریں۔ مجاہداول کے حکم پر جہاد کے دوران باجماعت نماز کا بھی بالخصوص اہتمام کیا گیا جس سے مذہبی فریضے کے ساتھ ساتھ مجاہدین کی اخلاقی تربیت بھی ہوتی رہی۔ اس پندرہ ماہ کی لڑائی میں مجاہدین نے 33 ہزار مربع میل کا علاقہ آزاد کروا لیا اور اس پر 24 اکتوبر 1947ء کو آزادجموں و کشمیر کی انقلابی حکومت قائم کی گئی جس کا پہلا صدر مقام تراڑکھل بنا اور غازئ ملت سردار ابراہیم خان اس کے پہلے صدر مقرر ہوئے۔
اس مسلح جدوجہد کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ اپنی مدد آپ کے تحت انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں شروع کی گئی اورکوئی بیرونی امداد بھی نہیں تھی البتہ موجودہ پاکستان کے علاقوں سے عام لوگوں کے علاوہ سرحد کے قبائلی مجاہدین بھی اپنے کشمیری بھائیوں کی امداد کے لیے وہاں پہنچے۔ ان مجاہدین کی پےدرپے کامیابیوں سے خائف ہوکر مہاراجہ حواس باختہ ہو کر جموں کی طرف بھاگ نکلا اور جاتے جاتے اس نے ریاست کے بھارت سے الحاق کی ایک نام نہاد مشکوک دستاویز 26 اکتوبر 1947ء بھارتی نمائندوں کے حوالے کر دی جس کی آڑ میں 27 اکتوبر 1947ء کوبھارتی فوجیں گوداسپور کے زمینی راستے اور ہوائی جہازوں کے ذریعے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بھارتی وائسرائے لارڈماؤنٹ بیٹن نے اپنی نگرانی میں یہ جہاز تیار کروا کر روانہ کیے، سرینگر ائرپورٹ پر اترنا شروع ہوگئیں اور انہوں نے پوری ریاست میں پھیل کر قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا اس کے باوجود مجاہدین کی پیشقدمی جاری رہی اور وہ مسلسل کامیابیاں حاصل کرتے کرتے سرینگر ائیرپورٹ کے قریب پہنچ گئے تو بھارتی حکمرانوں کو یقین ہو گیا کہ اب وہ بزور طاقت کشمیر پر قبضہ نہیں کر سکتے اور وہ یہ معاملہ اقوام ِ متحدہ میں لے گئے۔ اقوامِ متحدہ نے فوراً جنگ جنگ بندی کروا تو دی لیکن ریاست جموں وکشمیر کی آزادی کی منزل کوسوں دور کردی۔ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے اس نے رائےشماری کا ڈول ڈالا جس کے لیے متعدد قراردادیں منظور کیں لیکن بھارت نے ابھی تک ان پر عملدرآمد کی نوبت ہی نہ آنے دی اور نہ ہی اقوام متحدہ نے اس کے خلاف کوئی کاروائی کی لیکن کشمیری عوام کی اپنے اس جائز اور تسلیم شدہ حق کے لیے جدوجہد ابھی تک ماند نہیں پڑی۔
مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کی قیادت میں جو سفر جو نیلہ بٹ کی پہاڑی چوٹی سے شروع ہوا تھا وہ ابھی تک جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک پوری ریاست جموں و کشمیر آزاد ہو کر پاکستان کا حصہ نہیں بن جاتی۔ نیلہ بٹ کو نہ صرف یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہیں سے تحریک آزادئ کشمیر کا آغاز ہوا بلکہ اس کی ہی چوٹی سے پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان بھی پوری دنیا نے سنا۔ گوکہ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان اب اس دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کے جانے سے ان کی ولولہ انگیز قیادت میں شروع ہوئی یہ تحریک آزادی ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ ان کے افکار و فرمودات سے دوام پا کر یہ منزل مراد ضرور حاصل کرے گی اور انہوں نے اپنی قوم کو جس نظریے “کشمیر بنے گا پاکستان” پر گامزن کر کے اس کی لام بندی کی اس پر پوری کشمیری قوم آج بھی کاربند ہے اور الحاق پاکستان کا جو خواب خود قافلہ آزادی کے روح رواں مجاہدِاول سردار محمد عبدالقیوم خان اور اس کے سرخیل قائد کشمیر چوہدری غلام عباس، غازئ ملت سردار محمد ابراہیم خان اور تحریک آزادئ کشمیر کے بیشمار شہیدوں، مجاہدوں اور غازیوں کے ساتھ ساتھ سردار فتح محمد کریلوی، راجہ حیدر خان اور چوہدری نورحسین نے دیکھا تھا وہ ضرورشرمندہ تعبیر ہو گا۔ انشاءاللہ!!!
؎ نیلہ بٹ تو جرأت و عظمت کا نشان ہے!!!
تجھ سے وابستہ جموں و کشمیر کی تقدیر ہے!!!
تو ہی وارث ہے تحریک آزادئ کشمیر کا!!!
اور تجھ سے ہی وابستہ پاکستان کا یوم تکبیر ہے!!!