
لنگرخانے اور خودانحصاری
پاکستان میں ایک وسیع نیٹ ورک سرکاری اور نجی اداروں کے ذریعے روزانہ ہزاروں افراد کو لنگر خانوں میں مفت کھانا فراہم کرتا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد غریب اور مستحق افراد کی مدد کرنا ہے تاکہ کوئی بھوکا نہ سوئے۔ اگرچہ یہ جذبہ سخاوت اور سماجی بہبود کی علامت ہے، لیکن اس کا ایک تاریک پہلو بھی ہےوہ یہ کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جو جسمانی طور پر کام کرنے کے قابل ہیں لیکن مفت کھانے پر انحصار کر چکے ہیں اور روزگار کی تلاش کے بجائے سہولت کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہم واقعی ان کی مدد کر رہے ہیں، یا ہم خود انحصاری کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے انحصار کی ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں؟
دستیاب رپورٹس کے مطابق، اس وقت ملک بھر میں حکومت سمیت نجی سطح پر لگ بھگ ایک ہزار لنگر خانے اور دستر خوان کام کر رہے ہیں، جو روزانہ ہزاروں افراد کو مفت کھانا فراہم کرتے ہیں۔ مختلف نجی فلاحی تنظیمیں بھی اس کار خیر میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں جس کے تحت کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور جیسے بڑے شہروں میں کھانا تقسیم کیا جا رہا ہے۔ ان تمام منصوبوں پر سالانہ اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ اقدامات وقتی ریلیف فراہم کرتے ہیں، لیکن غربت اور بے روزگاری کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اگر ان فنڈز کا ایک حصہ بھی فنی تربیت، چھوٹے کاروباروں، یا صنعتی ورکشاپس کے قیام پر خرچ کیا جائے تو یہ زیادہ دیرپا مثبت نتائج دے سکتا ہے۔
پاکستان کی سماجی و اقتصادی صورتحال پر نظر ڈالیں تو بے روزگاری، تعلیم کی کمی، اور فنی تربیت کی ناکافی سہولتیں غربت کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ وہ ممالک جو غربت میں نمایاں کمی لانے میں کامیاب ہوئے، انہوں نے انسانی وسائل، مہارت کی ترقی، اور اقتصادی خود مختاری میں سرمایہ کاری کی۔ پاکستان کو بھی اسی ماڈل کو اپنانا ہوگا۔ اقتصادی خود مختاری قومی وقار کے لیے ناگزیر ہے۔ عالمی تعاون ضروری ہے، لیکن پاکستان کی پالیسیوں کو خود انحصاری کو ترجیح دینی چاہیے نہ کہ مستقل قرضوں اور امداد پر انحصار کو۔ ملک کے پاس زراعت، توانائی، اور صنعت کے وسیع مواقع موجود ہیں، جنہیں اگر مؤثر طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو بیرونی وسائل پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے۔ مقامی کاروباروں کو فروغ دینا، برآمدات کو بڑھانا، اور غیر ضروری درآمدات کو کم کرنا معاشی استحکام کے لیے کلیدی اقدامات ہیں۔
اسلام نے ہمیشہ غریبوں اور بھوکوں کی مدد پر زور دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سکھایا کہ افراد کو خود کفیل بنایا جائے، نہ کہ انحصار کرنے والا۔ حضور اکرم ﷺ کے دور میں سماجی بہبود کا تصور اسلامی معاشرے میں گہری جڑیں رکھتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے خیرات کی حوصلہ افزائی کی لیکن ساتھ ہی کام کرنے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ “یہ بہتر ہے کہ کوئی شخص لکڑیاں کاٹے اور انہیں فروخت کرے بجائے اس کے کہ وہ بھیک مانگے۔” زکوٰۃ کا نظام ضرورتمندوں کی مدد کے لیے تھا، لیکن ساتھ ہی انہیں خود کفیل بنانے کے مواقع بھی فراہم کیے گئے۔ اسلام کا معاشی نظام خود انحصاری، تجارت، اور پیداواریت کو فروغ دیتا ہے اور انحصاری ذہنیت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
خلفائے راشدین کے دور میں بھی ریاستی خزانے سے غریبوں کی مدد کی جاتی تھی، لیکن ساتھ ہی خود انحصاری کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں ریاستی وسائل سے غریبوں کی مدد کی گئی، لیکن ان کے لیے روزگار کے مواقع بھی فراہم کیے گئے۔ حضرت عمرؓ نے روزگار کے منصوبے متعارف کرائے، زراعت کی حوصلہ افزائی کی، اور لوگوں کو کام کرنے کے وسائل مہیا کیے۔ حضرت عثمانؓ، جو اپنی دولت اور سخاوت کے لیے مشہور تھے، نہ صرف خیرات دیتے بلکہ تجارت اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کر کے روزگار کے مواقع بھی پیدا کرتے تھے۔ حضرت علیؓ نے سماجی انصاف اور اقتصادی خود مختاری کو فروغ دیا اور فرمایا کہ “بہترین خیرات وہ ہے جو کسی کو مالی طور پر خود مختار بنا دے”۔
نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کا ماڈل ہمیں سکھاتا ہے کہ خیرات کا مقصد لوگوں کو خود کفیل بنانا ہونا چاہیے، نہ کہ انہیں مستقل انحصار میں ڈالنا۔ آج کے دور میں اگرچہ مفت کھانے کے پروگرام نیک نیتی سے چلائے جا رہے ہیں، لیکن یہ اسلامی ماڈل کے مطابق نہیں۔ ان اداروں کو محض روزانہ کھانا کھلانے کے بجائے پائیدار حل پر توجہ دینی چاہیے۔ اگر اربوں روپے سالانہ مفت کھانے پر خرچ کیے جا رہے ہیں، تو کیوں نہ ان فنڈز کو چھوٹے کارخانے، فنی تربیتی مراکز، اور کاروباری منصوبے شروع کرنے میں لگایا جائے؟ سلائی، بڑھئی، الیکٹریشن، اور زراعت جیسے ہنر سکھا کر لوگوں کو روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے۔
چین اور ملائیشیا جیسے ممالک نے غربت کو کم کرنے کے لیے مہارت کی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ دی۔ پاکستان کو بھی ان ماڈلز سے سیکھنا ہوگا اور قلیل مدتی ریلیف کے بجائے طویل مدتی خود مختاری کی طرف بڑھنا ہوگا۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپس کمیونٹی ٹریننگ سینٹرز، مائیکرو فنانس پروگرامز، اور کاروباری انکیوبیٹرز میں سرمایہ کاری کر کے اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
پاکستان کی ترقی اور خود انحصاری کا دار و مدار اس قومی سوچ پر ہے جو انحصار کو مسترد کر کے خود کفالت کو اپنائے۔ بیرونی امداد یا بین الاقوامی قرضوں پر انحصار ہو یا اندرونی خیرات، اس رجحان نے ملک کی حقیقی صلاحیتوں کو محدود کر دیا ہے۔ پاکستان کو دوسروں پر انحصار کرنے والی قوم بننے کے بجائے خود انحصاری، جدت طرازی، اور استقامت کی ثقافت کو فروغ دینا ہوگا۔ اس کے لیے حکومتی پالیسیوں اور انفرادی رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے—بیرونی امداد پر انحصار چھوڑ کر مقامی صنعتوں، اداروں، اور انسانی وسائل کو مضبوط بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ قائداعظم محمد علی جناح کا ویژن اقتصادی خود مختاری اور عزتِ نفس پر مبنی تھا، جو آج بھی اتنا ہی اہم ہے۔ تعلیم، تحقیق، اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان انحصار کے چکر سے نکل کر اپنے مستقبل کو اعتماد کے ساتھ تشکیل دے سکتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ تاریخ سے سبق حاصل کیا جائے اور ایسا نظام نافذ کیا جائے جو نہ صرف لوگوں کو کھانا فراہم کرے بلکہ انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بھی بنائے۔ اسی صورت میں ہم ایک حقیقی خوشحال اور خود مختار قوم بنا سکتے ہیں۔ خود کفالت کے کلچر کو فروغ دے کر، پاکستان اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ خیرات ایک سہارا بننے کے بجائے خود مختاری کا ذریعہ بنے۔