نیو انرجی سیکٹر

چین کا نیو انرجی سیکٹر: عالمی معیشت اور پائیدار ترقی میں انقلاب

بیجنگ، یورپ ٹوڈے: چین کا تیزی سے ترقی پذیر نیو انرجی سیکٹر نہ صرف ملک کے اندر جدت کی علامت ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک انقلابی قوت بن چکا ہے۔ صنعتی چین میں تعاون کے فوائد فراہم کرتے ہوئے، چین عالمی معیشت اور گرین انرجی کی ترقی کے لیے ایک نیا محرک فراہم کر رہا ہے۔

اس کی ایک واضح مثال تھائی لینڈ میں نظر آتی ہے، جہاں حکومت نے چینی آٹو میکرز کو الیکٹرک گاڑیوں کی سپلائی چین کے قیام کی اجازت دی ہے۔ تھائی-چینی اسٹریٹجک ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر سوراسیت تھاناتدانگ نے اس اقدام کو ایک اسٹریٹجک قدم قرار دیا ہے۔ چینی کمپنیوں جیسے SAIC، گریٹ وال، BYD، اور چیری نے تھائی لینڈ میں اپنے کارخانے قائم کیے ہیں، جو مزید سرمایہ کاری کو راغب کر رہے ہیں اور سپلائی چین میں توسیع کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

تھائی لینڈ کے ساتھ یہ تعاون چین کی اوپن ڈور پالیسی کی ایک مثال ہے، جو ٹیکنالوجی کی ترقی، روزگار کے مواقع پیدا کرنے، اور دونوں ممالک کے لیے باہمی فوائد کا ذریعہ بن رہی ہے۔

عالمی سطح پر، کئی بین الاقوامی کمپنیاں چین کے نیو انرجی سیکٹر سے منسلک ہو رہی ہیں۔ ٹیسلا کا شنگھائی پلانٹ، جو 2019 سے فعال ہے، دنیا کا سب سے مؤثر پلانٹ بن چکا ہے، جو ہر 40 سیکنڈ میں ایک گاڑی تیار کرتا ہے۔ 2023 میں، اس پلانٹ نے 947,000 گاڑیاں تیار کیں، جو ٹیسلا کی عالمی پیداوار کا نصف سے زیادہ ہیں۔

دیگر کار ساز کمپنیوں نے بھی چین میں اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے۔ اپریل 2024 میں، مرسڈیز بینز نے اپنے شنگھائی آر اینڈ ڈی مرکز کو اپ گریڈ کیا، جبکہ ووکس ویگن نے انہوئی صوبے میں 2.5 بلین یورو کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ BMW کے شینیانگ پروڈکشن بیس میں 2010 سے اب تک 100 بلین یوآن کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔

آٹوموٹو انوویشن کے علاوہ، چین دنیا بھر میں گرین انرجی منصوبوں میں بھی قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ جنوبی افریقہ میں ڈے آر ونڈ فارم اور کینیا میں گاریسا سولر پاور پلانٹ جیسے منصوبے توانائی کی کمی کو کم کرنے اور کم کاربن توانائی کے حل کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔

بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی کے مطابق، گزشتہ دہائی میں ونڈ اور سولر پاور کی عالمی لاگت میں بالترتیب 60% اور 80% کمی ہوئی ہے، جس میں چینی مہارت کا اہم کردار ہے۔

اگست میں شائع ہونے والے وائٹ پیپر “چائنا انرجی ٹرانزیشن” کے مطابق، چین 100 سے زائد ممالک کے ساتھ تعاون کر رہا ہے تاکہ صاف توانائی کی صنعتوں کو فروغ دیا جا سکے، تکنیکی علم کا اشتراک کیا جا سکے، اور گرین انرجی کی منتقلی کو یقینی بنایا جا سکے، جو عالمی سطح پر پائیدار توانائی کی ترقی کے لیے ایک نئی امیدہے۔

تھوا تھیئن Previous post ویتنام کے قومی اسمبلی کے چیئرمین کا تھوا تھیئن-ہوئے میں سابق ویتنامی جنرلز کو خراج عقیدت
زراعت Next post وفاقی وزیر خزانہ کا زراعت اور آئی ٹی کے ذریعے پائیدار معاشی ترقی کا عزم