
چینی وزیراعظم لی چیانگ 16ویں سالانہ “سمر ڈیووس” اجلاس میں شرکت کریں گے
بیجنگ، یورپ ٹوڈے: چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گوو جیاکُن نے پیر کے روز اعلان کیا ہے کہ وزیراعظم لی چیانگ 24 سے 25 جون تک تیانجن میں منعقد ہونے والے “نئے چیمپیئنز کی 16ویں سالانہ میٹنگ” (Annual Meeting of the New Champions – AMNC) میں شرکت کریں گے، جسے عام طور پر “سمر ڈیووس” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ترجمان کے مطابق، اس دو روزہ عالمی اقتصادی فورم کے دوران وزیراعظم لی چیانگ افتتاحی اجلاس میں شرکت کریں گے اور کلیدی خطاب کریں گے۔ وہ متعدد غیر ملکی مہمانوں سے ملاقاتیں کریں گے اور غیر ملکی کاروباری برادری کے نمائندوں کے ساتھ تبادلہ خیال بھی کریں گے۔
گوو جیاکُن کے مطابق، اس اہم عالمی اجلاس میں ایکواڈور کے صدر ڈینیئل نوبوا، سنگاپور کے وزیراعظم لارنس وونگ، کرغزستان کے وزیراعظم ادلبیک کیسیمالیف، سینیگال کے وزیراعظم عثمان سونکو، اور ویتنام کے وزیراعظم پھام منہ چِن بھی شرکت کریں گے۔
اس سال سمر ڈیووس کا موضوع “نئے دور میں کاروباری قیادت” (Entrepreneurship in the New Era) ہے، جس میں 90 سے زائد ممالک اور خطوں سے تعلق رکھنے والے 1,700 سے زیادہ سیاسی، کاروباری، تعلیمی اور میڈیا نمائندے شرکت کریں گے۔
فورم کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق، رواں سال کے اجلاس میں پانچ کلیدی شعبوں پر توجہ دی جائے گی:
- عالمی معیشت کی تفہیم
- چین کا اقتصادی مستقبل
- متاثرہ صنعتوں کا تجزیہ
- انسان اور کرہ ارض میں سرمایہ کاری
- نئی توانائی اور مواد
ورلڈ اکنامک فورم کی منیجنگ ڈائریکٹر جم ہُوای نیو نے 17 جون کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایشیا دنیا کے سب سے متحرک خطوں میں سے ایک ہے جو عالمی اقتصادی ترقی میں 60 فیصد حصہ ڈال رہا ہے، جس میں صرف چین کا حصہ نصف سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمر ڈیووس فورم شرکاء کو چین اور ایشیا میں ترقی کے رجحانات کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع فراہم کرے گا۔
واضح رہے کہ ورلڈ اکنامک فورم عام طور پر سوئٹزرلینڈ کے پہاڑی شہر ڈیووس میں جنوری کے مہینے میں منعقد ہوتا ہے، تاہم ہر سال جون میں چین میں اس کا ایک الگ اجلاس “سمر ڈیووس” کے نام سے منعقد ہوتا ہے۔
2007 میں اپنے آغاز سے اب تک، سمر ڈیووس چین میں ایک عالمی نوعیت کا اجلاس بن چکا ہے، جہاں دنیا بھر سے ابھرتے ہوئے کاروباری رہنما، ماہرین اور پالیسی ساز جمع ہوتے ہیں تاکہ پائیدار اور جامع ترقی کے نئے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے اور موجودہ اقتصادی چیلنجز کا حل تلاش کیا جا سکے۔