
تبصرہ بر ناول “چراغ ساز”

عثمان غنی رعدؔ ۲۵ فروری ۱۹۹۰ کو صوبہ پنجاب کے شہر حافظ آباد میں پیدا ہوئے۔میٹرک تک کی تعلیم حافظ آباد ہی میں حاصل کی۔ اس کے بعد منڈی بہاؤالدین سے تین سالہ جی سی ٹی رسول منڈی بہاؤالدین سے تین سالہ انجینیرنگ ڈپلومہ حاصل کیا۔ اس کے بعد چار سالہ بی ٹیک آنرز (انجینیرنگ) کی ڈگری حاصل کی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی سے بی-اے اور ایم-اے اردو کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد نمل اسلام آباد سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور اب بطور لیکچرار شعبہ اردو نمل اسلام آباد سے وابستہ ہیں۔
عثمان غنی رعدؔ اردو ادب کے ایک نمایاں افسانہ نگار ہیں جنہوں نے معاصر زندگی کے تلخ و شیریں حقائق کو نہایت فنکارانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کی تحریروں میں ایک گہرا مشاہدہ، فکری گہرائی اور جمالیاتی توازن دکھائی دیتا ہے۔ “کتستان” جیسا افسانوی مجموعہ ہو یا “چراغ ساز” جیسی علامتی کہانی — ان کا قلم سماجی ناہمواری، مذہبی استحصال، طبقاتی کشمکش اور انسانی جذبات کی نفسیاتی گرہیں کھولنے میں مہارت رکھتا ہے۔
عثمان غنی رعدؔ کی نثر میں ایک مخصوص استعاراتی فضا پائی جاتی ہے، جو ان کے اسلوب کو نہ صرف فکری بلکہ علامتی و تخلیقی بھی بناتی ہے۔ وہ کہانی کے کرداروں کو محض ایک قصے کے حصے کے طور پر نہیں بلکہ پورے عہد کی علامتوں کے طور پر تراشتے ہیں۔ ان کا انداز بیان سادہ مگر مؤثر ہے، جو قاری کے ذہن و دل پر دیرپا اثر چھوڑتا ہے۔
تبصرہ:
عثمان غنی رعد کا ناول “چراغ ساز” اردو فکشن میں ایک منفرد اضافہ ہے، جو نہ صرف روایتی اور جدید زندگی کے تصادم کو بیان کرتا ہے بلکہ انسانی جذبات، روایت، جدت، اور سماجی ارتقا کے پیچیدہ رشتوں کو بھی کھولتا ہے۔یہ کہانی ایک کمہار کی ہے جو نسل در نسل چراغ بنانے کا ہنر اپنائے ہوئے ہے۔ چراغ، جو روشنی کا استعارہ ہے، اس ناول میں زندگی، روایت اور قربانی کی علامت کے طور پر سامنے آتا ہے۔ مگر بدلتے وقت کے ساتھ جب برقی روشنی نے چراغ کی جگہ لے لی، تو یہ نہ صرف مٹی کے چراغوں کا زوال تھا بلکہ ایک پوری تہذیب کی معنویت اور جذباتی وابستگی بھی ختم ہونے لگی۔
ناول کا مرکزی کردار چراغی اپنے ہنر کی بقا کے لیے مختلف راستے تلاش کرتا ہے۔ وہ اپنی شناخت کو بچانے کی کوشش میں نہ صرف گاؤں کے بڑوں اور مذہبی شخصیات سے رجوع کرتا ہے بلکہ جدیدیت کے سیلاب کے سامنے ایک مضبوط دیوار بن کر کھڑا رہتا ہے۔ اس کا یہی سفر قاری کو اس کہانی میں باندھ کر رکھتا ہے۔
ناول میں سب سے زیادہ متاثر کن پہلو اس کا فلسفیانہ انداز ہے۔ “چراغ” صرف ایک مادی شے نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے، جو خود جل کر دوسروں کو روشنی دینے کا درس دیتا ہے۔ مگر جب بجلی کی تیز روشنی آتی ہے، تو نہ صرف چراغ بلکہ اس کے ساتھ جڑی وہ تمام وابستگیاں، احساسات، اور ایک خاص طرز زندگی بھی مدھم پڑنے لگتی ہیں۔
ناول کا ایک اور طاقتور پہلو کردار نگاری ہے۔ “چراغی”، اس کی بیوی، گاؤں کے بزرگ، نوجوان نسل، اور روایتی پنچایت جیسے کردار نہایت حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔ خاص طور پر چراغی اور نوجوان نسل کا مکالمہ اس ناول کا مرکزی نکتہ ہے، جو روایتی و جدید طرز فکر کے درمیان جھولتی دنیا کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے۔
یہ ناول ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ جدت کو روکا نہیں جا سکتا، کیونکہ یہ سورج کی روشنی کی طرح آتی ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ روایت کو فراموش کر دیا جائے۔ روایت کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے وقت کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے، تاکہ نہ وہ ماضی کا بوجھ بنے اور نہ ہی جدیدیت اس کی شناخت مٹا سکے۔
مجموعی طور پر، “چراغ ساز” نہایت عمدہ اور بصیرت افروز ناول ہے جو قاری کو مجبور کرتا ہے کہ وہ روایت اور جدیدیت کے درمیان تعلق کو ایک نئی نظر سے دیکھے۔ یہ ایک ایسی تحریر ہے جو قاری کو آخر تک اپنے سحر میں جکڑے رکھتی ہے اور ایک گہرا فکری تاثر چھوڑتی ہے۔
کردار:
ناول “چراغ ساز” کے کردار گہرائی اور معنویت کے حامل ہیں، جو صرف کہانی کو آگے نہیں بڑھاتے بلکہ ناول کے بنیادی موضوعات کو بھی واضح کرتے ہیں۔ ہر کردار اپنی جگہ ایک علامت ہے، جو روایت، جدیدیت، قربانی اور تہذیبی تبدیلیوں کی مختلف جہتوں کو اجاگر کرتا ہے۔
۱- چراغی (مرکزی کردار،روایت کا محافظ)
چراغی ایک کمہار ہے جو نسل در نسل چراغ بنانے کے ہنر سے جڑا ہوا ہے۔ وہ ناول میں روایت کا استعارہ ہے، جو اپنے آبا و اجداد کے فن کو بچانے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ وہ جدیدیت کے سیلاب کو دیکھ کر خوفزدہ بھی ہوتا ہے، مگر اپنی محنت اور لگن سے چراغ سازی کی روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی شخصیت استقامت، لگن اور اپنی جڑوں سے وابستگی کی مثال ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی سمجھنے لگتا ہے کہ روایت کو مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے، نہ کہ اسے جامد رکھنا۔
۲-نوجوان (جدید نسل کا نمائندہ)
یہ کردار نوجوان نسل کا عکاس ہے، جس کا نام ناول میں کہیں بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ یہ ایک ابہام ہے، جو شاید اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کوئی ایک فرد نہیں بلکہ پوری نئی نسل کی نمائندگی کر رہا ہے۔ جوان ترقی، تبدیلی اور جدت کا حامی ہے، وہ چراغی سے سوال کرتا ہے، دلائل دیتا ہے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور روایت کو بھی وقت کے ساتھ چلنا ہوگا۔ مگر وہ چراغی کے ہنر اور قربانی کی عظمت کو بھی تسلیم کرتا ہے۔
۳- چراغی کی بیوی ( محبت اور صبر کی علامت)
چراغی کی بیوی کا کردار روایتی عورت کے صبر اور قربانی کو پیش کرتا ہے۔ وہ اپنے شوہر کے جذبات کو سمجھتی ہے، اس کے دکھ اور ناکامیوں میں اس کا ساتھ دیتی ہے، مگر وہ بھی یہ جانتی ہے کہ دنیا بدل رہی ہے اور اسے بھی اس تبدیلی کو قبول کرنا ہوگا۔
۴- گاؤں کے بزرگ ( پرانی نسل کی دانش)
یہ کردار ماضی کی روایات اور دانش کے امین ہیں۔ وہ چراغی کی پریشانیوں کو سمجھتے ہیں، مگر کچھ حد تک جدیدیت کے سامنے بے بس بھی محسوس کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ روایت بچ جائے، مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نئی دنیا کے تقاضے مختلف ہیں۔
۵- گاؤں کے چوہدری (طاقت اور اختیار کی علامت)
چوہدری کا کردار گاؤں کے اس طبقے کی نمائندگی کرتا ہے جو طاقت، اختیار اور فیصلوں کا مرکز ہے۔ وہ نئے اور پرانے کے بیچ ایک پل کی مانند ہے۔ وہ روایت کو مکمل ختم کرنے کے حق میں نہیں، مگر جدیدیت کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کرتا۔
۶-پنچایت (اجتماعی فیصلوں کی جگہ)
یہ کردار کسی ایک فرد کی بجائے گاؤں کے اجتماعی شعور کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہاں سماجی اور تہذیبی سوالات پر بحث ہوتی ہے، فیصلے کیے جاتے ہیں، اور پرانے و نئے خیالات کے درمیان ایک جنگ دیکھی جا سکتی ہے۔
۷ -چرچ کے فادر اور مسجد کے مولوی ( مذہبی سوچ کے نمائندے)
چراغی جب اپنی روایت کے تحفظ کے لیے چرچ کے فادر اور مسجد کے مولوی سے مدد مانگتا ہے، تو یہ دونوں کردار مذہب اور ثقافت کی مشترکہ بنیادوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ مگر وہ بھی جدیدیت کے بڑھتے اثرات کو روکنے میں خود کو کمزور محسوس کرتے ہیں۔
۸- اندھے بزرگ میاں بیوی (ایک علامتی اور فکری جہت)
اندھے بزرگ میاں بیوی بظاہر تو ایک عام، گمنام جوڑا ہے، مگر ان کی گفتگو، کردار، اور چراغی کے ساتھ تعلق ایک علامتی اور فکری جہت رکھتا ہے۔
- بصارت سے محروم، بصیرت سے روشن:یہ دونوں کردار جسمانی طور پر اندھے ہیں، مگر ان میں ایک ایسی روحانی بصیرت ہے جو چراغی کو اس کی زندگی، روایت، اور خواب کی معنویت سے روشناس کراتی ہے۔یہ کردار گویا “چراغی” کے اندر جھانکتے ہیں، اسے سچ دکھاتے ہیں جو وہ خود نہیں دیکھ پاتا۔
- روایت اور سوال:ان کی گفتگو چراغی کو اپنے خاندانی پیشے، سماجی ڈھانچے، اور مذہبی و ثقافتی تعصبات پر سوال اٹھانے کی ترغیب دیتی ہے۔ان کی زبان میں سادگی ہے، مگر معانی میں فلسفہ چھپا ہوتا ہے۔
- صدیوں کا تجربہ:یہ کردار صدیوں پرانی روایت، خاموش اذیت، اور تہذیبی نرمی کا استعارہ ہیں۔ وہ نہ صرف خود چراغی سے بات کرتے ہیں بلکہ قاری سے بھی گویا ہوتے ہیں کہ:
“جو دیکھتے ہو وہی سچ نہیں ،جو نہیں دیکھ سکتے وہی سب سے گہرا سچ ہے۔” (سعدی)
ناصحانہ مگر خاموش فلاسفی:یہ جوڑا کسی واعظ کی طرح نہیں، بلکہ زندگی کی ٹھوکر کھائے ہوئے درویشوں کی طرح بات کرتا ہے۔ چراغی کی الجھنوں کے جواب دیتے ہیں، مگر قاری کو بھی سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اندھے بزرگ میاں بیوی کا کردار ناول کا ایک روحانی اور فکری ستون ہے، جو نہ صرف چراغی کو روشنی دکھاتے ہیں بلکہ قاری کو بھی علم، روایت اور سوال کے درمیان جھولتی انسانی شناخت کا سامنا کرواتے ہیں۔ ان کو تجزیہ سے خارج کرنا ناول کی معنویت کو کم کرنا ہو گا۔
۹-چراغی کی بیٹی ( نئی نسل کی حقیقت)
ناول کی علامتی روح۔ وہ بچی جو چراغی کی آخری امید ہے، جسے وہ مرنے سے پہلے نوجوان کی گود میں دیتا ہے۔ وہی بچی تعلیم حاصل کر کے یونیورسٹی کی لیکچرار بنتی ہےاور گو بظاہرچراغ سازی کا ہنر ختم ہو جاتا ہے، مگر اس کی روحانی روشنی اس بیٹی کے کردار سے آگے بڑھتی ہے۔
“چراغ ساز” کے کردار دراصل تہذیبی تبدیلی کے مختلف زاویے پیش کرتے ہیں۔ چراغی ماضی کی وابستگی کا استعارہ ہے، جوان مستقبل کے امکانات کا نمائندہ ہے، چراغی کی بیوی قربانی کی علامت ہے، اور گاؤں کے دوسرے کردار سماجی ارتقا کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں۔یہی کردار ناول کو محض ایک کہانی نہیں، بلکہ ایک فکری تجربہ بنا دیتے ہیں، جہاں قاری خود کو روایت اور جدیدیت کی کشمکش میں شامل محسوس کرتا ہے۔
ناول “چراغ ساز” کا موضوع ، اسلوب اورتکنیکس
موضوع:
ناول “چراغ ساز” ایک گہرے تہذیبی اور فکری موضوع کو اٹھاتا ہے، جو روایت اور جدیدیت کے تصادم پر مبنی ہے۔ یہ کہانی صرف چراغ بنانے والے کمہار کی نہیں، بلکہ ایک پورے معاشرتی نظام کے بدلنے کی کہانی ہے۔ ناول میں ثقافتی زوال، مشینی ترقی، روایت کی بقا، جدیدیت کی ناگزیر حقیقت، دیہی زندگی کی مشکلات، انسانی جدو جہد اور وقت کے ساتھ چلنے کی ضرورت جیسے اہم موضوعات کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔یہ ناول سوال اٹھاتا ہے کہ:
کیا روایت کو بچایا جا سکتا ہے؟
کیا جدیدیت ہی واحد راستہ ہے؟
کیا ماضی اور مستقبل میں کوئی ہم آہنگی ممکن ہے؟
یہی سوالات ناول کو ایک فکری جہت دیتے ہیں، جس میں قاری بھی اپنے تجربات کی روشنی میں اپنا جواب تلاش کرتا ہے۔
اسلوب:
ناول کا اسلوب سادہ، رواں اور علامتی ہے۔ مصنف نے زبان میں غیر ضروری پیچیدگی پیدا نہیں کی، بلکہ روزمرہ کی عام زبان استعمال کی ہے تاکہ قاری کرداروں کے جذبات کو محسوس کر سکے۔بیانیہ اسلوب ناول میں غالب ہے، لیکن مکالمے بھی نہایت فطری اور جاندار ہیں۔علامتوں کا خوبصورت استعمال کیا گیا ہے، مثلاً چراغ روایت کی علامت ہے، جبکہ بجلی اور مشینیں جدیدیت کی علامت کے طور پر آتی ہیں۔منظر نگاری بہت عمدہ ہے، جو کہانی کے ماحول کو حقیقی بنا دیتی ہے۔ خاص طور پر چراغی کی بھٹی، اس کا کام، گاؤں کے مناظر اور بدلتے وقت کے اثرات کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔کرداروں کی نفسیاتی گہرائی کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے، جو ان کی سوچ اور رویوں میں واضح نظر آتی ہے۔
تکنیکس:
مصنف نے اس ناول میں پنجابی الفاظ کا استعمال کر کے جہاں پنجابی روایت کو جدید روایت سے جوڑا ہے وہیں جدید اور کلاسیکی تکنیکوں کا امتزاج کر کے جدت کو روایت سے روشناس بھی کرایاہے۔
- واقعات کی منطقی ترتیب:کہانی میں واقعات وقت کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، کہیں کہیں فلیش بیک کی تکنیک موجود ہے، خصوصاً چراغی کے کردار میں۔ وہ ماضی میں اپنے والد کے خیالات اور مکالموں میں ڈوبتا ہے، جو نہ صرف اس کے کردار کی تشکیل کرتے ہیں بلکہ ناول کی تھیم، روایت، اور تسلسل کے ساتھ جُڑے ہوتے ہیں۔ یہ فلیش بیک نہ صرف بیانیہ میں گہرائی پیدا کرتے ہیں بلکہ چراغ سازی کی روایت کے تسلسل کو علامتی طور پر واضح کرتے ہیں۔
- تمثیلی انداز:چراغ بنانے کا فن صرف ہنر نہیں بلکہ ثقافت، روایت اور ورثے کی علامت ہے، جبکہ نئی روشنی اور مشینیں ترقی اور میکانیکی زندگی کی نمائندگی کرتی ہیں۔
- کرداروں میں علامتی رنگ:چراغی روایت کا استعارہ ہے جبکہ نوجوان نئی نسل اور ترقی پسندی کا عکاس ہے۔چراغی کی بیوی قربانی اور صبر کی علامت ہے۔
- گاؤں کا منظرنامہ اور دیہی حقیقت پسندی:مصنف نے تکنیکی طور پر ناول میں دیہی زندگی کے حقیقی رنگ بھرے ہیں، جو ایک خاص سوشیولوجیکل اینگل پیش کرتے ہیں۔
- تہذیبی مکالمہ:ناول میں مکالمے صرف کرداروں کے درمیان بات چیت نہیں، بلکہ ایک فکری مباحثہ ہیں جو ماضی اور حال کے تصادم کو واضح کرتے ہیں۔
“چراغ ساز” محض ایک کہانی نہیں بلکہ وقت کے ساتھ بدلتی ہوئی انسانی تہذیب کا نوحہ ہے۔ اس میں روایت کی شکست، جدیدیت کی جیت اور سماجی تبدیلیوں کے اثرات کو انتہائی فنی مہارت سے پیش کیا گیا ہے۔یہ ناول اسلوب اور تکنیک کے اعتبار سے سادہ مگر گہرا ہے، جس میں قاری کو سوچنے پر مجبور کر دینے کی طاقت موجود ہے۔ یہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔چراغ ساز ایک ایسا بیانیہ ہے جو قاری کو خاموشی سے جھنجھوڑ دیتا ہے۔ یہ ناول ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہر نسل کو اپنے چراغ خود جلانے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات چراغ بجھ جاتے ہیں، مگر ان کی راکھ سے بھی نئی روشنی پیدا کی جا سکتی ہے۔
چراغی مر جاتا ہے، مگر اس کی بیٹی — جسے وہ “چراغ سازی” کی ایک اور شکل میں چھوڑ کر جاتا ہے — ثابت کرتی ہے کہ:
“روایت مٹی میں دفن نہیں ہوتی، وہ تربیت اور شعور کے ذریعے نئے روپ میں پھولتی ہے۔” (سعدی)
“چراغ ساز” نہ صرف ایک علامتی عنوان ہے بلکہ اس کا ہر کردار ایک نیا مفہوم روشن کرتا ہے۔ اسی مفہوم کو میں نے ایک نثری نظم میں یوں محسوس کیا ہے۔۔۔
چراغ سازی کے اور بھی طریقے ہیں۔۔۔!
کہیں ایک چراغی تھا
جو اپنی لو میں نسلوں کا خواب جلائے بیٹھا تھا
اسے یقین تھا،
ایک دن
اسی لو سے کوئی بیٹا روشنی کا وارث بنے گا
کوئی ایسا ہاتھ
جو فتیلے کو محبت سے سلگانا جانتا ہو
مگر۔۔۔چراغی کے خوابوں کو
اندھی روایتوں کی آنکھوں نے چاٹ لیا
اور وہ بیٹی،
جو نرمی سے دنیا میں آئی
ماں کے آخری لمس سے لپٹی ہوئی
باپ کی آخری امید
چراغی مر گیا
کب، کہاں، کیسے، کیوں؟
یہ سوال نہیں ۔۔۔قصہ یہ ہے کہ
جو مر گئے وہ روشنی کا استعارہ چھوڑ گئے
اور جو جی رہے ہیں
وہ راکھ سے زندگی لکھ رہے ہیں
وہ بیٹی۔۔۔جو مٹی کے چراغ تو نہ بنا سکی
مگر وہ ایک نئی چراغ ساز بن گئی
وہ معلم بنی
جومٹی کے انسان میں عقل و شعور کی لو
علم کے نور سے روشن کرکے
انسان کی شخصیت کو مثل چراغ کرتی ہے
چراغوں کی کہانیاں سنا کر
جن کی آنکھوں میں روشنی کم ہے
ان کے ذہنوں کو روشن کرتی ہے
کہاں لکھا ہے
کہ روشنی صرف جلنے میں ہے؟
کبھی کبھی
بجھ کر بھی چراغ
کسی کی زندگی کا سورج بن جاتا ہے۔۔۔!