تاجِ

تاجِ خار

جنوبی ایشیا کا سیاسی منظرنامہ دنیا کے ہنگامہ خیز ترین خطّوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں عوام کے ووٹ کی طاقت کا مقابلہ اکثر عدالتی طاقت سے ہوتا ہے—بلکہ بسا اوقات وہ اس پر سبقت لے جاتی ہے۔ دنیا کے کسی اور خطے میں اتنے زیادہ سابق وزرائے اعظم کو مختلف نوعیت کے قانونی مقدمات، نااہلیوں، گرفتاریوں اور بالآخر سزاؤں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہ صورتحال اتنی عام ہو چکی ہے کہ سیاسی مبصرین اسے استثنا نہیں بلکہ ایک معمول قرار دیتے ہیں، تاہم اس کی تعبیر زیادہ تر سیاسی رقابتوں اور طاقت کے بدلتے ہوئے توازن کے تناظر میں کی جاتی ہے۔  

پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں عدالتوں کے ہاتھوں سب سے زیادہ سابق وزرائے اعظم کو نااہلی، سزا یا قانونی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ میاں محمد نواز شریف اس رجحان کی نمایاں ترین مثال ہیں۔ 2017 میں پاناما کیس میں بطور وزیر اعظم ان کی نااہلی—جو بدعنوانی کے الزام پر نہیں بلکہ بیٹے کی کمپنی سے وصول نہ کی گئی تنخواہ کو ظاہر نہ کرنے پر ہوئی—نے یہ واضح کردیا کہ معمولی قانونی سقم بھی سیاسی کیریئر کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ ایک سال بعد ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں احتساب عدالتوں نے انہیں سزائیں سنائیں، جن کے نتیجے میں قید و بند کے ایام آئے، اگرچہ 2023 میں یہ فیصلے کالعدم قرار پائے اور وہ دوبارہ سیاسی سرگرمیوں میں واپس آگئے۔

عمران خان کو بھی اسی سرعت سے عدالتی زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ 2022 میں توشہ خانہ کیس میں نااہلی، پھر ریاستی تحائف کی غیر قانونی فروخت پر قید، اور بعد ازاں سائفر کیس میں سزا—ان کے خلاف قانونی کارروائیوں کا سلسلہ غیر معمولی شدت سے جاری رہا۔ وہ اور ان کے وزیرِ خارجہ دونوں سرکاری راز ایکٹ کی خلاف ورزی پر دس برس قید کی سزا پا چکے ہیں، جو پاکستان میں کسی موجودہ یا سابق وزیر اعظم کے خلاف سب سے سنگین عدالتی اقدام تصور کیا جاتا ہے۔

یوسف رضا گیلانی کو 2012 میں توہینِ عدالت پر وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی کے دوران 1999 میں عدم موجودگی میں بدعنوانی کے ایک مقدمے میں سزا سنائی گئی، جو بعد میں کالعدم قرار دے دی گئی۔ شاہد خاقان عباسی نے 2019 میں ایل این جی کیس کے باعث کئی ماہ جیل میں گزارے، جبکہ راجہ پرویز اشرف کو رینٹل پاور پروجیکٹس کیس میں برسوں تک عدالتی کارروائیوں سے گزرنا پڑا، اگرچہ وہ بالآخر بری ہوگئے۔

تاہم پاکستان کی عدالتی تاریخ کا سب سے افسوسناک باب ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ اور 1979 میں ان کی پھانسی ہے۔ فوجی حکومت کے ہاتھوں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد انہیں قتل کی سازش میں سزا سنائی گئی، مگر تاریخ اور قانون دونوں اس فیصلے کو ایک سنگین ناانصافی قرار دیتے ہیں۔ مارچ 2024 میں سپریم کورٹ نے ایک تاریخی رائے دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ بھٹو کو منصفانہ ٹرائل نہیں ملا—یہ فیصلہ اگرچہ علامتی تھا، مگر دہائیوں بعد ایک اہم عدالتی اعتراف بھی۔

یہ سلسلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں۔  بنگلہ دیش میں بھی سیاست اور عدلیہ کا تعلق اسی نوعیت کی کشمکش سے بھرا ہے۔ شیخ حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء کی طویل سیاسی دشمنی بارہا عدالتوں کے ایوانوں تک پہنچی۔ 2007–2008 کی ایمرجنسی کے دوران شیخ حسینہ کو بھتہ خوری کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جو بعد میں واپس لے لیا گیا۔ دوسری جانب خالدہ ضیاء کو  ضیاءآر فنیج ٹرسٹ کیس میں دس برس قید کی سزا سنائی گئی، اور تب سے وہ سخت قانونی پابندیوں میں رہ رہی ہیں۔ مگر سب سے غیر معمولی واقعہ 17 نومبر 2025 کو پیش آیا، جب ایک خصوصی ٹربیونل نے شیخ حسینہ واجد کو 2024 میں طلبہ کے احتجاج کے سختی سے کچلے جانے سے متعلق مبینہ جرائمِ انسانیت پر غیر حاضری میں سزائے موت سنائی۔ بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے آڈیو شواہد کی بنیاد پر ان کے دفتر کو ان فوجی کارروائیوں سے جوڑا جن میں ایک ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔ یہ فیصلہ جنوبی ایشیاء کی سیاسی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔

سری لنکا میں اگرچہ کم ہی وزرائے اعظم کو سزا ہوئی، مگر تحقیقات کا سلسلہ مستقل رہا۔ دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم سرماوو بندرانائیکے کو 1980 میں ایک خصوصی کمیشن نے اختیارات کے ناجائز استعمال کا مرتکب قرار دیا، جس کے نتیجے میں ان کے شہری حقوق سات برس کے لیے سلب کر لیے گئے—اس اقدام کو وسیع پیمانے پر سیاسی انتقام سمجھا گیا۔ مہندا راجا پاکسے اور رنیل وکرما سنگھے پر کرپشن، اختیارات کے غلط استعمال اور بدترین سکیورٹی ناکامیوں تک کے الزامات لگے، مگر دونوں کسی سزا سے بچے رہے۔

بھارت میں جمہوری روایت نے وزرائے اعظم کو فوجداری سزا سے محفوظ رکھا، مگر عدالتوں کا سایہ وہاں بھی موجود رہا۔ 1975 میں اندرا گاندھی کو معمولی انتخابی قواعد کی خلاف ورزی پر الہ آباد ہائی کورٹ نے نااہل قرار دیا، اور اسی فیصلے نے ایمرجنسی کے نفاذ کا راستہ ہموار کیا۔ راجیو گاندھی کا نام ان کی وفات کے سالوں بعد تک بوفورس سکینڈل سے جڑا رہا، جس سے وہ آخرکار بری ہوئے۔

نیپال میں سابق وزرائے اعظم اکثر الزامات کی زد میں آتے رہے مگر سزائیں شاذ و نادر ہی ہوئیں۔ کرشنا پرساد بھٹڑائی، گیریجا پرساد کوئرالا، بابو رام بھٹڑائی اور شیر بہادر دیوبا جیسے رہنماؤں کے خلاف مقدمات کا آغاز تو دھوم دھام سے ہوا، مگر سیاسی عدم استحکام، سول وار کی سیاست، ادارہ جاتی کمزوری اور علاقائی دباؤ کے باعث بالآخر دم توڑ دیتا۔ یوں عدلیہ زیادہ تر کمزور یا سیاسی طور پر منقسم دکھائی دی۔

پورے جنوبی ایشیا میں یہ کہانیاں ایک مشترکہ حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں؛ سابق حکمرانوں کو اقتدار چھوڑتے ہی تحقیقات، گرفتاریوں اور نااہلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مقدمات کی ٹائمنگ اکثر انتخابی شیڈول سے ہم آہنگ ہوتی ہے، اور فیصلوں کا انحصار براہِ راست ثبوت پر نہیں بلکہ سیاسی طاقت کے اس وقت کے توازن پر ہوتا ہے۔ سزائیں مخالفین کے لیے جشن اور حامیوں کے لیے ماتم بن جاتی ہیں، اور جب اقتدار کا رخ بدلتا ہے تو اکثر یہ فیصلے بھی بدل جاتے ہیں۔

جنوبی ایشیا کا راستہ اسی وقت درست سمت اختیار کر سکتا ہے جب عدلیہ کی آزادی کو مضبوط کیا جائے اور احتساب کے ایسے شفاف اور یکساں اصول قائم کیے جائیں جن میں نہ تاخیر ہو، نہ سیاسی انتقام کی بو۔ اس وقت تک خطے کی عدالتیں اسی سیاسی میدان کا توسیعی حصہ بنی رہیں گی، جہاں حکمرانوں کی قسمت کا فیصلہ ان کے اقتدار چھوڑنے کے بعد بھی ہوتا رہتا ہے۔

پاکستان Previous post وزیرِاعظم شہباز شریف کی جانب سے سہ ملکی سیریز کی ٹیموں کے اعزاز میں ظہرانہ، پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی میزبانی کو امن و استحکام کا ثبوت قرار
ویتنام Next post ویتنام اور الجزائر نے دوطرفہ تعلقات کو اسٹریٹجک شراکت داری میں تبدیل کرنے پر اتفاق کر لیا