
یوم تکبیر…یوم تشکر
28 مئی 1998… وہ میری زندگی کی بہترین اور خوبصورت ترین شام تھی ہلکی پھلکی بارش کے بعد ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور میں ٹی وی پر وزیراعظم کے پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کی خوش خبری سن رہا تھا اس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف قوم کو خوشخبری دے رہے تھے اور میری آنکھوں سے خوشی اور تشکر کے آنسوئوں کی جھڑی جاری تھی بلکل وہی کیفیت اس وقت بھی مجھ پر طاری ہے جب میں اس تاریخی اور اپنی زندگی کے خوشگوار ترین لمحے کی روداد لکھنے بیٹھا ہوں،تاریخ کے ان خوشگوار لمحات میں مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میرے دل پر سانحہ مشرقی پاکستان سے لگنے وا لے زخم پر کسی نے پھاہا رکھ دیا ہو،مجھے اپنا آپ اور اپنا پیارا پاکستان مکمل طور پر محفوظ محسوس ہو رہا تھا ایسا لگ رہا تھا پاکستان کے گرد ایک حفاظتی دیوار بن گئی ہو۔یہ میرے ہی نہیں پوری قوم اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات تھے،یہ پاکستان کی طرف سے کئے گئے پانچ دھماکے نہیں بلکہ نعرہ ہائے تکبیر تھے جن سے پاکستان کے دشمنوں کے دل دھل گئے تھے۔
یہ اعلان پوری مسلم دنیا میں نہایت خوشی اور اطمینان کا باعث تھا اور مجھے اس فلسطینی کے الفاظ نہیں بھولتے جس نے ایک صحافی سے بات کرتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا کہ آج میں اپنے آپ کو بہت پرائوڈ محسوس کر رہا ہوں اس کے یہ الفاظ ہادی برحقؐ کے اس فرمان کی عکاسی کر رہے تھے کہ پوری مسلم امت جسد واحدہ ہے۔میری قوم نے یہ منزل آسانی سے نہیں پائی تھی اس کے پیچھے اس قوم کا وہ عزم تھا جو بھارت کے پوکھران میں کیئے گئے دھماکوں کا جواب دینا ہے اور اپنی سلامتی کو محفوظ بنانے کا وہ جذبہ تھا جس کا اظہار وزیر اعظم بھٹو نے ان تاریخی الفاظ سے کیا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے اس جذبے کے تحت ہمارے سائنسدانوں نے عظیم قومی ہیروز ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک کی قیادت میں دن رات ایک کر کے ثابت کر دیا کہ بقول مصور پاکستان علامہ محمد اقبال ؒ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔
اس منزل مراد تک پہنچنے کا سہرا ہمارے سیاسی،فوجی اور سفارتی قائدین کے سر بھی ہے جنھوں نے اپنے اپنے محاذ پر اپنا کام انتہائی دانشمندی،حکمت عملی اور جذبہ حب الوطنی سے انجام دیا۔بھٹو صاحب کے بعد اس مبارک مشن کو مکمل خفیہ رکھنے اور پائیہ تکمیل تک پہنچانے میں جنرل ضیاالحق اور سابق صدر غلام اسحاق کی خدمات بھی قابل ذکر بے شمار اور لائق تحسین ہیں کیونکہ بھٹو صاحب نے جس عمارت کی بنیاد رکھی تھی اسکی تکمیل جنرل ضیاء الحق اورغلام اسحاق خان صاحب کی دانشمندی اور،حوصلے کی مرھون منت ہے جنھوں نے انتہائی جرت سے غیر ملکی دباو کا مقابلہ کیا اور بظاہر ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا اس سلسلے میں ہر وہ احتیاط ملحوظ خاطر رکھی جو منزل تک پہنچانے کے لیئے ضروری تھی۔منزل مراد تک پہنچنے میں ہمارے قومی پریس نے بھی شاندار کردار ادا کیا اور ہمارے ولم کاروں نے غیر ملکی پروپیگنڈے اور منفی رویوں کا انتہائی جراء ت اور مہارت سے مقابلہ کیا اس سلسلے میں ہمارے پریس اور اس سے وابستہ سب لوگ بلا شبہ تحسین کے مستحق ہیں۔ہمارے عسکری اداروں نے جس طرح ہماری ایٹمی تنصیبات اور سائنس دانوں کی حفاظت کی وہ بے مثال ہے اور پوری قوم کو اپنے عسکری اداروں بالخصوص آئی۔ایس۔آئی کی کاوشوں پر ناز ہے،غرض پوری قوم اس مسئلے پر پوری طرح یکسو تھی کہ کسی طرح پاکستان کا یہ دفاعی حصار کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچے۔
میں اگر ان دوست ممالک جن میں سعودی عرب اور لیبیا بھی شامل ہیں کا ذکر اور شکریہ ادا نہ کروں تو احسان فراموشی ہوگی کہ ان ممالک نے اس سلسلے میں پاکستان کی مالی مدد کی۔اس دن کو بعد میں یوم تکبیر کا نام دیا گیا جو ہر لحاظ سے مناسب اور موزوں ہے میں اپنی تحریر کو ختم کرنے سے پہلے اپنے رب کا شکر گزار ہوں کہ جس نے پاکستان کی حفاظت کے لیئے اتنا زبردست انتظام کرنے میں ہر موقعے پر ہماری مدد فرمائی اس کے بعد میں ہر اس فرد کا شکر گزار ہوں جس نے کسی بھی حیثیت میں اس مشن کی تکمیل میں حصہ لیا،آئیے اس مشن کو شروع سے آخر تک پائیہ تکمیل تک پہنچانے والوں کے لیئے پروردگار عالم سے دعا کریں کہ وہ انھیں جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور جنت الفردوس عطا فرمائے اور جو کردار موجود ہیں سب کو اچھی صحت اور آسانی والی زندگیاں عطا فرمائے اور آخرت کے لیئے اس عظیم کارنامے کو انکے لیئے توشہ آخرت بنائے آمین