نجیبہ

ڈاکٹر نجیبہ عارف کی آذربائیجان میں عالمی کانفرنس میں شرکت، ثقافتی تعلقات کی مضبوطی پر زور

باکو، یورپ ٹوڈے: اکادمی ادبیاتِ پاکستان کی صدر نشیں پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے آذربائیجان نیشنل اکیڈیمی اوف سائنسز کے ماتحت ادارے نظامی گنجوی انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس بہ عنوان ”ایشیائی اقوام کا ادب: روایت اور جدید رجحانات“ 15 تا 18 دسمبر 2024ء میں پاکستان کی نمائندگی کی اور اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا۔ علاوہ ازیں پاکستان اور اکادمی کی نمائندگی کرتے ہوئے خیر مقدمی کلمات بھی پیش کیے۔ یہ کانفرنس آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو میں واقع نظامی گنجوی انسٹی ٹیوٹ میں منعقد ہوئی جس میں آٹھ ایشیائی ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔ ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ آذربائیجان، ترکی، چین، جنوبی کوریا، ویت نام، قازقستان اور ازبکستان شامل تھے۔

کانفرنس کے پہلے روز افتتاحی اجلاس میں آذربائیجان نیشنل اکیڈیمی اوف سائنسز کے صدر جناب پروفیسر ڈاکٹر عیسیٰ حبیب علی کی صدارت میں ڈاکٹر نجیبہ عارف نے اکادمی ادبیاتِ پاکستان کی طرف سے خیرسگالی کا پیغام دیتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان موجود تہذیبی و ثقافتی اشتراک کا اعتراف کیا۔ انھوں نے اکادمی ادبیاتِ پاکستان اور آذربائیجان نیشنل اکیڈیمی اوف سائنسز کے درمیان باہمی اشتراک و تعاون کی مفاہمتی یادداشت کے حوالے سے دونوں اداروں کے درمیان مشترک علمی وادبی سرگرمیوں کی اہمیت کا ذکر کیا اور اس ضمن میں اكادمی كی جانب سے دستِ تعاون دراز كرنے كی پیش كش كی۔ نیز انھوں نے دونوں ممالك اور اقوام كے درمیان یگانگت اور محبت كی تحسین كرتے ہوئے آذر بائیجان کے عوام، بالخصوص نیشنل اکیڈیمی اوف سائنسز کے صدر پروفیسر ڈاکٹر عیسیٰ حبیب علی ، نظامی گنجوی انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر پروفیسر مہمان حسین علی اور شعبہ علوم ِشرقیہ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر بدر خان احمد علی کا شکریہ ادا کیا اور انھیں اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے کتب اور یادگاری تحائف پیش کیے۔

کانفرنس کے دوسرے سیشن میں چار متوازی اجلاس منعقد ہوئے جن میں مہمان مندوبین نے مقالات پیش کیے۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف کے مقالے کا موضوع تھا ’’West in South Asian Muslim Discourse- A Study of 18th century’s Travelogues of Europe‘‘۔ پہلے دن کا اختتام پروفیسرڈاکٹر عیسیٰ حبیب علی کی جانب سے عشائیے پر ہوا۔

کانفرنس کے دوسرے روز سب سے پہلے مہمان مندوبین کو نظامی گنجوی انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ علومِ شرقیہ کا دورہ کروایا گیا۔ اس انسٹی ٹیوٹ میں مختلف ایشیائی زبانوں کے خصوصی گوشے قائم کیے گئے ہیں جن میں ان زبانوں کی کتب اور دیگر نمائندہ اشیا رکھی گئی ہیں۔ ہر زبان اور اس کے ادب پر تحقیق کرنے والے محققین اس ادارے سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آذر بائیجان کے عوام اور خواص کے دل میں پاکستان کی خصوصی محبت موجزن ہے جس کا اظہار بار بار کیا جاتا ہے۔ اس محبت کا ایک اظہار شعبۂ علوم شرقیہ میں ”پاکستان مرکز“ کا قیام ہے۔ اس مرکز میں قائد اعظم کی تصویر اور پاکستان کے جھنڈے کے علاوہ مختلف اہم شخصیات کی تصاویر بھی آویزاں کی گئی ہیں اور اردو زبان کی اہم کتب بھی محفوظ کی گئی ہیں۔

اس ادارے سے وابستہ کئی محققین نے پاکستان اور بالخصوص اقبال پر دادِ تحقیق دے رکھی ہے۔ ادارے میں اکادمی ادبیاتِ پاکستان کی مطبوعہ کتاب’’اقبال۔ شخصیت اور فن‘‘ کا آذری زبان میں ترجمہ کروا کے شائع کیا ہے بلکہ ایک محقق ڈاکٹر بصیرہ عزیز علی نے اقبال کی زندگی پر خود بھی ایک کتاب آذری زبان میں تصنیف کی ہے۔ اس کے علاوہ اقبال کے معروف خطبات ’’Reconstruction of the Religious Thought in Islam‘‘ کا بھی آذری میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ایک خاتون محقق پاکستان کے انگریزی ادب پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کر رہی ہیں۔

نظامی گنجوی انسٹیٹیوٹ کے دورے کے بعد مندوبین کو ڈاکٹر عیسیٰ حبیب علی کی زیرِ قیادت نایاب درختوں کے ایک ذخیرے میں لے جایا گیا جہاں سب سے پہلے پاکستانی مندوب کی حیثیت سے صدر نشیں اکادمی ادبیات ڈاکٹر نجیبہ عارف سے ایک پودا لگوایا گیا۔ اس کے بعد ترکی اور چند دیگر ممالک کے مندوبین نے بھی پودے لگائے۔

اس کے بعد شہر کے مرکز میں واقع ایک شاہانہ عمارت میں قائم آذربائیجان کے نیشنل اکیڈیمی اوف سائنسز کے صدر کےدفتر میں کانفرنس کا اگلا سیشن شروع ہوا جس میں مختلف ممالک کے مندوبین نے اپنی اپنی زبان کی نمائندہ طویل لوک نظموں کے بارے میں مقالات پیش کیے۔کانفرنس کے اختتام پر مندوبین کو صدر ڈاکٹر عیسیٰ حبیب علی کی جانب سے الوداعی نشان پیش کیے گئے۔

کانفرنس کے تیسرے روز ڈاکٹر نجیبہ عارف کی خصوصی خواہش پر انھیں باکو سٹیٹ یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کا دورہ کروایا گیا۔ شعبے کے صدر جناب پروفیسر ڈاکٹر مہدی کاظم اور ڈین اوف فیکلٹی اوف اوریئنٹل سٹڈیز پروفیسر عدن خاندان نے شعبہ اردو کے اساتذہ اور طلبہ کے ہمراہ ان کا خیر مقدم کیا اور انھیں شعبے کا دورہ کروایا گیا۔ نیز شعبے کے طلبہ نے ان کے اعزاز میں ایک مختصر پروگرام بھی پیش کیا۔شعبہ اردو کی جانب سے اردو ادب کی تاریخ پر مبنی کوئی مستند کتاب بھیجنے کی سفارش کی گئی نیز طلبہ کی رہنمائی کے لیے دیگر امور بھی زیر بحث آئے۔ شعبے کے استاد محترم ایل دوست نے اردو زبان سکھانے کے لیے مرتب کردہ اپنی کتب کا ایک سیٹ اور پروفیسر مہدی کاظم نے فارسی ادبیات پر اپنی ایک انگریزی تصنیف ڈاکٹر نجیبہ عارف کو پیش کی۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے بھی اکادمی کے مجلہ ادبیات اور چند دیگر کتب شعبۂ اردو کے استفادے کے لیے پیش کیں۔

بعد ازاں،نظامی گنجوی انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر، پروفیسر مہمان حسین علی سے ایک ملاقات میں دونوں اداروں کے درمیان جولائی 2024 میں ہونے والی مفاہمتی یادداشت کی مختلف شقوں پر عمل درآمد کے سلسلے میں باہمی مشاورت ہوئی اور ان شقوں کے مطابق عملی اقدامات کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔پاکستان میں آذر بائیجان کے سابق سفر عین اللہ مدد علی نے بھی ڈاکٹر نجیبہ عارف سے خصوصی ملاقات کی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ سے متعلق اپنی کتاب پیش کی جس کا آذری زبان سے انگریزی میں ترجمہ زیر طبع ہے۔ آخر میں ڈاکٹر نجیبہ عارف کو ادبی عجائب گھر کا دورہ کروایا گیا جہاں آذر بایئجان کے ادب کی تاریخ کے مختلف ادوار کو قالینوں، مصوری کے نمونوں، مجسموں، مخطوطات اور کتب سمیت دیگر نادر اشیا کی مدد سے محفوظ کیا گیا ہے۔ اس عجائب گھر کے نگران اور سابق سپیکر قومی اسمبلی جناب رافیل حسینوف کی طرف سے کتابوں کا ایک سیٹ ڈاکٹر نجیبہ عارف کو پیش کیا گیا اور مہمانوں کی کتاب پر ان کے دستخط حاصل کیے گئے۔

مولدووا Previous post مولدووا کی صدر مائیا سندو پر ٹرانسنیسٹریا کے خلاف فوجی آپریشن کی منصوبہ بندی کا الزام، چیشینیو کی تردید
بیلاروس Next post بیلاروس کے صدر لوکاشینکو کا روسی صدر پوٹن سے ملاقات اور چین کے دورے کا اعلان