پاکستان

پاکستان میں سرمائی بارشوں میں کمی اور موسمیاتی تبدیلی کا کردار

پاکستان اس وقت شدید سردی کی خشک سالی کا شکار ہے، اور بارشوں کی مقدار پچھلے برسوں کے مقابلے میں واضح طور پر کم ہوگئی ہے۔ وہ علاقے جو کبھی برف کی خوبصورتی میں ڈھکے ہوتے تھے—جیسے گلیات، ملکہ کوہسار مری اور شمال کے شاندار علاقے—اب ویران اور بنجر نظر آتے ہیں۔ محکمہ موسمیات نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور گزشتہ سہ ماہی میں بارشوں کی تشویشناک کمی کی رپورٹ دی ہے، جو ملک کے موسمی توازن پر سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔

اس مسئلے کی اصل جڑ عالمی موسمیاتی تبدیلی ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں مستقل اضافے نے موسم کے معمول کے انداز کو متاثر کیا ہے، اور دنیا بھر میں غیر متوقع اور شدید موسمی حالات پیدا کر دیے ہیں۔ پاکستان، جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں معمولی حصہ دار ہے، اس کا غیر متناسب بوجھ اٹھا رہا ہے اور دنیا کے سب سے زیادہ موسمیاتی خطرے سے دوچار ممالک میں شامل ہے۔ قدیم گلیشیئرز کا پگھلنا، مون سون کی غیر متوقع صورتحال، اور موسم سرما کی بارشوں کی حالیہ کمی اس مسئلے کی سنگینی کی عکاسی کرتی ہیں۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت، جو زیادہ نمی رکھتا ہے، بارشوں کی تقسیم اور شدت کو متاثر کرتا ہے، اور وہ علاقے جو کبھی برفباری کے عادی تھے، اب اپنی موسمی نعمتوں سے محروم ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی بھی اس مسئلے کو بڑھا رہی ہے۔ شہری ترقی، صنعتی اخراجات، اور گاڑیوں کی آلودگی نے فضا میں آلودگیوں کی مقدار میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ یہ آلودگیاں بادل بننے اور بارش کے عمل میں رکاوٹ ڈالتی ہیں، جس سے بارشوں کی کمی مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان کے شہری علاقوں، خاص طور پر لاہور میں، ہوا کے معیار کی حالت خطرناک حد تک خراب ہو چکی ہے، جو نہ صرف انسانی صحت کو متاثر کرتی ہے بلکہ ماحولیاتی توازن کو بھی خراب کرتی ہے۔

جنگلات کی کٹائی اس بحران کا ایک اور بڑا سبب ہے۔ شہری ترقی، زراعت، یا لکڑی کے حصول کے لیے درختوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی نے قدرتی آبی سائیکل کو درہم برہم کر دیا ہے۔ جنگلات نمی کی سطح کو برقرار رکھنے اور بارش کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ درختوں کے احاطے کے نقصان نے نہ صرف مٹی کے کٹاؤ اور صحرازدگی کو بڑھایا ہے بلکہ موسم کے نمونوں کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت بھی کم کر دی ہے۔ پاکستان میں جنگلات کی کوریج پہلے ہی عالمی معیار سے بہت کم ہے، اور جنگلات کی مزید کٹائی صورتحال کو مزید خراب کرے گی۔ بارشوں میں حالیہ کمی کا تعلق پاکستان میں بڑھتے ہوئے خشک سالی کے مسئلے سے بھی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں ملک نے بار بار خشک سالی کا سامنا کیا ہے، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں، جہاں پانی کی قلت ایک مستقل مسئلہ بن چکی ہے۔ زراعت، جو پاکستان کیمعیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، خاص طور پر اس سے متاثر ہوتی ہے۔ بارشوں کی کمی فصلوں کی پیداوار کو متاثر کرتی ہے، خوراک کی حفاظت کو خطرے میں ڈالتی ہے، اور زیرزمین پانی پر انحصار بڑھاتی ہے، جس سے پہلے سے کمزور پانی کے وسائل مزید ختم ہو جاتے ہیں۔

گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پاکستان کے موسم کے نمونوں کا جائزہ لینے سے ایک تشویشناک رجحان سامنے آتا ہے۔ موسم گرما اور سرما دونوں میں بارشیں غیر متوقع ہوتی جا رہی ہیں، کچھ سالوں میں تباہ کن سیلاب آتے ہیں جبکہ دوسرے سال طویل خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ غیر مستقل مزاجی پانی کے انتظام اور زرعی منصوبہ بندی کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ مون سون کی غیر یقینی صورتحال اور اس سال موسم سرما کی بارشوں کی کمی واضح کرتی ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی استحکام اور پائیدار ماحولیاتی اقدامات کو ترجیح دینی چاہیے۔

اس بحران کے فوری اور طویل مدتی مضمرات سے نمٹنے کے لیے کئی ہنگامی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ سب سے پہلے، ایک قومی شجرکاری مہم کا آغاز کیا جانا چاہیے تاکہ جنگلات کا رقبہ، خاص طور پر خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں، بڑھایا جا سکے۔ دوسرا، پانی کے تحفظ کے طریقوں کو ہر سطح پر فروغ دینا چاہیے، بشمول گھریلو، صنعتی، اور زرعی سطح پر۔ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے، مؤثر آبپاشی کی تکنیک، اور پانی کے ذخائر کی بحالی کے اقدامات بارشوں کی کمی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ تیسرا، ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کے لیے سخت قوانین کی ضرورت ہے، جن میں صاف توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی، گاڑیوں کے اخراج کے معیارات پر عمل درآمد، اور ماحولیاتی تحفظ کی اہمیت کے بارے میں عوامی شعور بیدار کرنا شامل ہے۔

مزید برآں، پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے عالمی کوششوں میں فعال طور پر حصہ لینا چاہیے۔ اس میں پیرس معاہدے جیسے بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنا اور ترقی یافتہ ممالک سے مالی اور تکنیکی مدد حاصل کرنے کے لیے آواز اٹھانا شامل ہے تاکہ موسمیاتی مزاحمت کو بہتر بنایا جا سکے۔ مشترکہ آبی وسائل اور علاقائی موسمیاتی حکمت عملیوں پر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون بھی اس بحران سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

قرآن مجید میں بارش اور خشک سالی کے بارے میں ہدایات موجود ہیں، اور احادیث، بشمول استسقاء کی دعا، بارش اور قحط کے وقوع کو روشنی میں لاتی ہیں۔ ان روحانی اعمال میں مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور رہنمائی مانگنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے

“اور ہم آسمان سے برکت والی بارش نازل کرتے ہیں اور اس کے ذریعے باغات اور کھیتی پیدا کرتے ہیں” (سورۃ ق: 9)

یہ آیات اللہ کی رحمت کو ظاہر کرتی ہیں جو بارش کو نعمت اور زندگی کے ذرائع کے طور پر فراہم کرتی ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے قحط سالی کے دوران نماز استسقاءکے بعد دعا کی اور فرمایا

اے اللہ، ہمیں بارش عطا فرما، فائدہ مند بارش، ایسی بارش جو پانی، زندگی، اور خوشحالی لائے” (سنن ابوداؤد)۔

پاکستان اس وقت تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں ماحولیاتی چیلنجز نہ صرف معیشت بلکہ عوام کی بھلائی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ موجودہ خشک سالی ایک سخت یاد دہانی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی انحطاط، اور پانی کی قلت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔ پائیدار طرز عمل کو اپنانے، موسمیاتی مزاحمت کو مضبوط کرنے، اور اجتماعی ذمہ داری کے احساس کو فروغ دے کر، پاکستان ان چیلنجز کا سامنا کر سکتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک مستحکم اور خوشحال مستقبل یقینی بنا سکتا ہے۔

شہباز شریف Previous post وزیر اعظم شہباز شریف نے بہار کے تہوار پر چین کے عوام اور صدر شی جن پنگ کو مبارکباد دی
بیلاروس Next post بیلاروس اور یورپی یونین کے درمیان تجارت 8 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، وزیر خارجہ میکسم ریزینکوف