
دریائے راوی کے بڑھتے پانی سے لاہور کو بچانے کی کوششیں، پنجاب بھر میں تباہی، 22 جاں بحق، 12 لاکھ سے زائد متاثر
لاہور، یورپ ٹوڈے: حکام جمعرات کے روز دریائے راوی کے بڑھتے ریلے سے لاہور کو بچانے کی شدید جدوجہد میں مصروف رہے، جب کہ شاہدرہ اور بلوکی ہیڈورکس پر پانی خطرناک سطح تک جا پہنچا، جس سے شہر کے مضافات اور قریبی دیہات کو شدید خطرات لاحق ہوگئے۔
پنجاب بھر میں سیلابی صورتحال نے ایک ملین سے زائد افراد کو بے گھر کردیا ہے، جبکہ کم از کم 22 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ حالیہ برسوں کا سب سے سنگین سیلابی بحران قرار دیا جا رہا ہے، جس نے انتظامیہ اور ریاستی اداروں کے لیے ایک کڑا امتحان کھڑا کردیا ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ 48 گھنٹوں میں مزید بارشوں کے باعث دریائے راوی، ستلج اور چناب میں سیلابی کیفیت مزید سنگین ہوسکتی ہے۔ ادارے نے عوام پر زور دیا ہے کہ ایمرجنسی کی صورت میں فوری طور پر مقامی حکام اور ریسکیو اداروں سے رابطہ کریں۔
لاہور میں دریائے راوی کی کڑی نگرانی جاری ہے، جہاں شاہدرہ پر پانی کی آمد 2,19,770 کیوسک تک پہنچ گئی، جبکہ بلوکی پر بہاؤ 1,17,490 کیوسک ریکارڈ کیا گیا، جس پر انتظامیہ نے "انتہائی الرٹ” کا نفاذ کردیا۔
ریسکیو 1122 کے مطابق، گزشتہ چند دنوں میں مختلف حادثات میں 22 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ گجرات میں پشتے ٹوٹنے سے تین بچے ڈوب گئے، جبکہ سیالکوٹ میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد مکان بہہ جانے سے جاں بحق ہوئے۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 263 ریلیف کیمپ قائم کر دیے گئے ہیں اور اب تک 365 ریسکیو مشنز مکمل ہو چکے ہیں۔ دور دراز علاقوں تک امداد پہنچانے کے لیے ہیلی کاپٹرز اور کشتیاں استعمال کی جا رہی ہیں۔
دریائے چناب نے سب سے زیادہ تباہی مچائی ہے۔ قادرآباد ہیڈورکس پر پانی کی آمد 9,96,000 کیوسک تک پہنچ گئی، جو بیراج کی استعداد (8,00,000 کیوسک) سے کہیں زیادہ ہے۔ دباؤ کم کرنے کے لیے منڈی بہاؤالدین اور علی پور چٹھہ کے قریب پشتوں میں شگاف ڈالے گئے، جس سے وسیع زرعی اراضی زیرِ آب آگئی۔
قصور، پاکپتن اور بہاولنگر میں عارضی بند ٹوٹ گئے، جس سے کھیت ڈوب گئے اور سیکڑوں خاندان راتوں رات نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ مقامی افراد کے مطابق، انہوں نے ٹریکٹر ٹرالیوں اور عارضی بیڑوں کے ذریعے بزرگوں، بچوں اور مویشیوں کو محفوظ مقامات تک پہنچایا۔
سیالکوٹ ایئرپورٹ پر بھی پانی داخل ہونے سے پروازیں عارضی طور پر لاہور منتقل کر دی گئیں۔ نارووال اور شیخوپورہ میں متعدد دیہات کٹ کر رہ گئے ہیں، جبکہ وزیرآباد میں نالہ پلکھو کی طغیانی سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے۔
محکمہ موسمیات نے 29 اگست سے 2 ستمبر تک ملک بھر میں مزید بارشوں اور طوفانی ہواؤں کی پیشگوئی کی ہے، جس سے مزید سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہے۔
این ڈی ایم اے نے خبردار کیا ہے کہ اگلے دو دنوں میں شمالی و شمال مشرقی پنجاب، خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور سندھ و بلوچستان کے کئی اضلاع میں شدید بارشوں کے باعث سیلابی کیفیت مزید گھمبیر ہو سکتی ہے۔
حکام کے مطابق، پنجاب کے مختلف اضلاع میں اب تک تقریباً 1,400 دیہات زیرِ آب آچکے ہیں، جبکہ 12 لاکھ سے زائد افراد براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔
لاہور کے لیے سب سے بڑا خطرہ دریائے راوی کے شاہدرہ اور بلوکی مقامات پر ہے، جہاں پانی مسلسل بلند سطح پر برقرار ہے۔ حکام نے پشتوں کو مضبوط کرنے اور ہنگامی مشینری تعینات کرنے کا عمل مکمل کر لیا ہے، تاہم آئندہ 48 گھنٹے شہر کے محفوظ رہنے کے حوالے سے نہایت فیصلہ کن ہوں گے۔