
آنکھیں ازمحمد علی پاشا ۔ ایک تجزیہ

محمد علی پاشا نوجوان نسل کے ممتاز شاعر ہیں۔ ان کےفن پاروں کے مجموعے “آنکھیں” اور “سراب” کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی شاعری کے پہلےمجموعے” آنکھیں” کے مطالعہ سے یوں محسوس ہوا کہ جو منظر انہوں نےدیکھا اور جو جو احساس اس نے محسوس کیا اس نے اپنے مشاہدے کو بہت سادہ الفاظ میں بیان کیا ہے۔
محمد علی پاشا کی شاعری کی کتاب “آنکھیں” ایک منفرد عنوان کی حامل ہے، جو قاری کو غور و فکر پر مجبور کرتی ہے۔ “آنکھیں” کا عنوان اپنے اندر کئی معنی سمیٹے ہوئے ہے، جیسے مشاہدہ، خواب، حقیقت اور جذبات۔ یہ کتاب ان کی شعری صلاحیتوں اور تخیلاتی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے۔شاعر نے “آنکھوں” کو انسان کے مشاہداتی پہلو اور اس کے ذریعے دیکھے گئے تجربات کا استعارہ بنایا ہے۔ یہ آنکھیں خواب بھی دیکھتی ہیں، حقیقت کو بھی جانچتی ہیں، اور جذبات کو ظاہر بھی کرتی ہیں۔
محمد علی پاشا کی کتاب “آنکھیں” ایک خوبصورت شاعری کا مجموعہ ہے، جو انسانی جذبات اور تجربات کی گہرائیوں کو اپنی نظموں میں سموئے ہوئے ہے۔ اس کتاب میں شاعر نے مختلف موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے، جن میں محبت، زندگی کی حقیقتیں، غم، خوشی، اور انسانی رشتہ شامل ہیں۔ “آنکھیں” نہ صرف ایک بصری علامت کے طور پر استعمال کی گئی ہیں، بلکہ وہ انسان کے دل کی گہرائیوں اور جذبات کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔
پروفیسر احسان اکبر صاحب لکھتے ہیں محمدعلی پاشاکی تخلیقات ” آنکھیں “کےنام سےطبع ہوئیں توعوام کےلئےان کی مرضی کی شےثابت ہوئیں۔عام آدمی اس حوالےسےبڑی خاص اہمیت رکھتاہےکہ وہ جس شےکوپسندکرےاسےخریدتاہے۔ لہٰذا ” آنکھیں “طباعت کےبعدجلدہی عوام کےہاتھوں میں تھی۔
کتاب کی اتنی جلدی فروخت اس خوبی کی غمؔاز ہے’ہاتھ کنگن کوآرسی کیا‘ ۔پنجابی والےکہتے ہیں” چن چڑھیا ُکل عالم ویکھے “۔کتاب کی مقبولیت ہی کےباعث اس کادوسراایڈیشن زِیرطباعت ہے۔ (یکم فروری، 2021)
کتاب کی نظموں میں وقت کی بے قابو نوعیت اور ماضی کی خواہشات کے درمیان توازن کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ “آنکھیں” انسان کے اندر چھپے ہوئے جذبات، ان کی غمگینی، خوشی، اور محبت کو ایک نئے انداز میں بیان کرتی ہیں۔ شاعر نے اپنی نظموں میں فلسفے، محبت کی پیچیدگیوں، اور دل کے رازوں کو ظاہرکیا ہے، جو قارئین کے دل کو چھوتے ہیں۔کتاب کا اسلوب سادہ مگر بلیغ ہے، جس میں لفظوں کی چناؤ کے ذریعے گہرے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ہر نظم میں ایک مختلف تجربہ یا حالت کو پیش کیا گیا ہے، جو قارئین کو اپنی زندگی کی پیچیدگیوں اور حسین لمحوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
آنکھیں اکثر ان احساسات کی آئینہ دار ہوتی ہیں جو الفاظ میں بیان نہیں کیے جا سکتے اس لئے شاعر شاید زندگی کے فلسفے کو آنکھوں کے ذریعے بیان کرتے ہیں، کہ کس طرح آنکھیں دیکھنے کے باوجود کبھی دھوکہ کھاتی ہیں اور کبھی حقیقت کا سامنا کرتی ہیں۔”آنکھیں” قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ دنیا کو کیسے دیکھتا ہے، ظاہر کے مطابق یا گہرائی میں جا کر۔ وہ مختصر اور جامع انداز میں بڑی بات کہنا چاہتے ہیں، جو قاری کو دیر تک سوچنے پر مجبور کرے۔
آنکھیں “ایک ایسی کتاب معلوم ہوتی ہےجس میں محمد علی پاشا نے آنکھوں کے ذریعے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے، جو ان کے تخلیقی وژن کا عکاس ہے۔محمد علی پاشا نے اپنے مجموعہ آنکھیں میں لکھے گئے کلام کو بڑے معصومانہ انداز میں عشق حقیقی اور مجازی محبت کے حوالے سے تحریر کیا ہے۔ کہیں ان کو محبت رو گ جان لگتی ہے تو کہیں وہ بچپن کی سنہری یادوں کا تذکرہ کرتے نظر اتے ہیں ۔ کبھی وہ وقت کی تنابیں کھینچ کر وقت کو پلٹانے کی کوشش میں ہیں اورکہیں وہ محبوب کی بے رخی سے نالاں ہیں لیکن امید کا دامن کہیں نہیں چھوڑا یہ کتاب ان کی اچھی کوشش ہے۔
المختصر کہا جا سکتا ہے کہ “آنکھیں” ایک نہایت دلچسپ اور فکر انگیز کتاب ہے، جو ہر قاری کو اپنی شاعری کے ذریعے انسانی جذبات کی مختلف پرتوں سے آشنا کرتی ہے۔ محمد علی پاشا نے اس کتاب میں اپنے شاعرانہ ہنر کا بھرپور اظہار ہے، اور یہ کتاب اردو شاعری کے دلدادہ افراد کے لیے کشش کا باعث ہے۔اللہ پاک انہیں وسعت عطا فرمائے۔ آمین