
رحمت کے قدموں کے نقوش: رسولِ اکرم ﷺ کے مبارک سفر
رسول اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ، سن 570ء میں مکہ معظمہ کی مقدس فضاؤں میں ولادت سے لے کر 632ء میں مدینہ منورہ میں وصال تک، ایک مسلسل سفر کی کہانی ہے۔ یہ سفر محض شہروں اور راستوں کی تبدیلی نہ تھے بلکہ حکمتِ الٰہی اور تقدیرِ ربانی کے ایسے جلوے تھے جو آپ ﷺ کو بنی نوع انسان کے آخری نبی اور ہادی کے منصب کے لیے تیار کرتے رہے۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘ (الانبیاء: 107)۔
آپ ﷺ کا پہلا سفر طفولیت میں ہوا، جب والدہ ماجدہ حضرت آمنہؓ آپ کو یثرب لے گئیں تاکہ والد حضرت عبداللہؓ کی قبر کی زیارت کرا سکیں۔ واپسی پر والدہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئیں اور یوں آپ ﷺ کمسنی ہی میں یتیمی کے کرب سے آشنا ہو گئے۔ یہ پہلا سفر آپ ﷺ کی زندگی میں صبر اور حوصلے کا ایسا نقش چھوڑ گیا جو آئندہ زمانے میں آپ ﷺ کی قوتِ برداشت کا سنگِ بنیاد ثابت ہوا۔
بچپن اور اوائل جوانی میں آپ ﷺ اپنے دادا حضرت عبدالمطلب اور بعد ازاں اپنے چچا حضرت ابو طالب کے ساتھ تجارتی قافلوں میں شریک ہوئے۔ بارہ برس کی عمر میں آپ ﷺ شام کے شہر بُصریٰ تک حضرت ابو طالب کے ساتھ گئے۔ وہاں ایک عیسائی راہب، بحیرا نے آپ ﷺ کے وجود میں نبوت کی نشانیاں پہچانیں اور حضرت ابو طالب کو خبردار کیا کہ اس بچے کو بیرونی دشمنوں سے بچایا جائے۔ یہ سفر محض تجارتی نہ تھا بلکہ اس بات کا اشارہ تھا کہ یہ بچہ غیر معمولی مقدر رکھتا ہے اور اس کا پیغام سرحدوں سے ماورا ہو کر پوری انسانیت تک پہنچے گا۔
جوانی میں آپ ﷺ نے مزید تجارتی سفر کیے، خاص طور پر سیدہ حضرت خدیجہؓ کے کاروبار کے سلسلے میں۔ انہی سفرات میں آپ ﷺ کی سچائی، دیانت اور بلند اخلاق نے حضرت خدیجہؓ کو اس قدر متاثر کیا کہ بعد میں وہ آپ ﷺ کے نکاح میں آگئیں۔ یوں آپ ﷺ کے تجارتی سفر آپ کو “الصادق” اور “الامین” کے لقب سے معروف کر گئے۔
یہ سفر آپ ﷺ کے لیے حکمت سے خالی نہ تھے۔ انہوں نے آپ ﷺ کو مختلف قوموں اور مذاہب—یہودی، عیسائی، مجوسی—کے طور طریقے اور معاشرت سے آگاہ کیا، اور دنیا کے اخلاقی زوال کا مشاہدہ کرایا۔ یہی تجربات بعد میں آپ ﷺ کے پیغام کی عالمگیر حیثیت کو نمایاں کرنے میں مددگار ہوئے۔ قرآن میں ارشاد ہے: ’’(اے محمدﷺ) کہہ دیجیے، اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں‘‘ (الاعراف: 158)۔
جب نبوت کا اعلان فرمایا، تو آپ ﷺ کے سفر ایک نئے باب میں داخل ہوگئے۔ اب یہ سفر محض تجارت کے نہیں بلکہ دعوت، صبر اور قربانی کے سفیر تھے۔ انہی میں ایک نمایاں سفر طائف کا ہے۔ مکہ کی سختیوں کے بعد جب آپ ﷺ وہاں نصرت کے طلبگار ہوئے تو طائف کے لوگوں نے آپ ﷺ کو سنگ باری اور طعن و تشنیع سے زخمی کیا۔ لیکن آپ ﷺ کی دعا نے تاریخ کو حیران کردیا: “اے اللہ! اگر تو مجھ سے راضی ہے تو مجھے کسی دکھ کی پرواہ نہیں۔” یہ سفر سراپا استقامت اور رحمت کا مینار بن گیا
سب سے عظیم معجزاتی سفر اسراء و معراج ہے، جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو ایک رات میں مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں کی بلندیوں تک سیر کرائی۔ قرآن کہتا ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی، جس کے گرد ہم نے برکت رکھی، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘ (بنی اسرائیل: 1)۔ اس سفر میں پانچ وقت کی نماز کا تحفہ ملا، جو امت مسلمہ کے لیے روحانی سہارا ہے۔
آپ ﷺ کے سفرات میں سب سے فیصلہ کن ہجرت مدینہ تھی، جو 622ء میں پیش آئی۔ یہ فرار نہ تھا بلکہ تدبیر اور نصرتِ الٰہی کا آغاز تھا۔ مدینہ میں آپ ﷺ نے پہلی اسلامی ریاست قائم کی اور میثاقِ مدینہ کے ذریعے مختلف قبائل اور مذاہب کو ایک نظام کے تحت جوڑ دیا۔ قرآن اس موقع پر تسلی دیتا ہے: ’’اگر تم نے رسول کی مدد نہ کی تو اللہ نے ضرور اس وقت ان کی مدد کی جب کافروں نے انہیں نکالا اور وہ دو میں سے ایک تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے اور اپنے ساتھی سے کہا: غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘ (التوبہ: 40)۔ یہ ہجرت دراصل اسلام کو ایک ابھرتی ہوئی تہذیب میں ڈھالنے کا نقطہ آغاز تھا۔
آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں عرب کے مختلف گوشوں کا سفر کیا—بدر، احد، خندق، حدیبیہ، خیبر، حنین اور تبوک—کبھی دفاع کے لیے، کبھی معاہدے کے لیے اور کبھی دعوت کے لیے۔ لیکن ہر سفر میں آپ ﷺ نے عدل، حلم اور رحم دلی کے وہ نقوش چھوڑے جو دشمنوں کے دلوں کو بھی نرم کر گئے۔
آپ ﷺ کا آخری سفر 632ء میں حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ کا تھا، جہاں آپ نے ایک لاکھ سے زائد صحابہؓ کے سامنے دین کی تکمیل کا اعلان فرمایا: ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند کرلیا‘‘ (المائدہ: 3)۔ اس کے بعد آپ ﷺ مدینہ واپس تشریف لائے اور وہاں وصال فرمایا، لیکن ایک ایسی امت چھوڑ گئے جو آپ ﷺ کا پیغام دنیا کے ہر کونے تک پہنچانے والی تھی۔
یوں رسولِ اکرم ﷺ کے سفر کبھی بے مقصد نہ تھے۔ یہ سب الٰہی تقدیر کا حصہ تھے، جو آپ ﷺ کو پوری انسانیت کا رہبر بنانے کے لیے طے کیے گئے تھے۔ شام کے بازاروں سے طائف کے باغوں تک، غارِ ثور سے سدرۃ المنتہیٰ تک، ہر سفر ایثار، صبر اور رحمت سے مزین تھا۔ یہ سفر دراصل حق کے وہ قدم تھے، جنہوں نے دلوں کو تلوار سے نہیں بلکہ کردار، شفقت اور کلامِ الٰہی کی قوت سے فتح کیا۔