جبری نقل مکانی اور فلسطین کا مستقبل

جبری نقل مکانی اور فلسطین کا مستقبل

تاریخ گواہ ہے کہ اقوام نے جنگوں، قبضوں اور جبری ہجرتوں کا سامنا کیا ہے، لیکن کسی پوری آبادی کو اپنے آبائی وطن سے نکال کر کسی اور جگہ بسانے کا تصور ایک غیر معمولی اور نہایت ہی تکلیف دہ معاملہ ہے۔ کسی قوم کو اس کے ملک سے زبردستی بےدخل کرنا نہ صرف نقل مکانی بلکہ جبری بے دخلی، خودمختاری کی خلاف ورزی اور بعض صورتوں میں سراسر غصب کے مترادف ہے۔

جبری ہجرت، جو انسانی تاریخ پر گہرے زخم چھوڑ چکی ہے، آج بھی انسانی اور قانونی سطح پر پیچیدہ سوالات کو جنم دیتی ہے۔ جنگ، مظالم یا ماحولیاتی آفات کے سبب بے شمار اقوام کو اپنی زمینیں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ جبر امن کی ناپائیداری اور انصاف کے لیے جاری جدوجہد کی یاد دلاتا ہے۔ یہ سوال کہ آیا کسی ملک یا اس کے عوام کو زبردستی بےدخل کیا جا سکتا ہے، صرف نظریاتی نہیں بلکہ عملی حیثیت رکھتا ہے اور بین الاقوامی قانون و اخلاقیات کی بنیادوں کو چیلنج کرتا ہے۔

اقوام متحدہ، عالمی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ذمہ دار بنیادی بین الاقوامی ادارے کے طور پر، قوموں کی خودمختاری اور لوگوں کے اپنی سرزمین میں رہنے کے حقوق کو برقرار رکھتی ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر واضح طور پر علاقے کے زبردستی حصول اور آبادیوں کی نقل مکانی سے منع کرتا ہے۔ خود ارادیت کا اصول، جو بین الاقوامی قانون میں درج ہے، لوگوں کو بیرونی جبر کے بغیر خود پر حکومت کرنے کا حق دیتا ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ، جو 1948 میں اپنایا گیا تھا، لوگوں کے اس حق کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ ظلم و ستم یا بے دخلی کے خوف کے بغیر اپنے وطن میں آزادانہ زندگی گزاریں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کسی کو من مانی طور پر اس کی قومیت سے محروم نہیں کیا جائے گا یا اس کے ملک سے جلاوطن نہیں کیا جائے گا۔ پوری آبادی کو زبردستی ہٹانے کی کوئی بھی کوشش انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہوگی، جو کہ بنیادی بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہے جو لوگوں کو نسلی صفائی اور نسل کشی سے بچاتے ہیں۔ تاریخ میں جبری ہجرت کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جو بے دخل ہونے والی اقوام کی تکالیف اور ان کی مزاحمت کی گواہ ہیں۔ 1948 میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران فلسطینیوں کی بے دخلی ایک ایسی ہی مثال ہے، جو آج تک ایک نازک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے محروم ہو گئے اور مہاجرین کی حیثیت سے اردن، لبنان، شام اور دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ اسی طرح، 1994ء کے روانڈا قتل عام کے دوران لاکھوں توتسی باشندے اپنی جانیں بچانے کے لیے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ مزید برآں، 2011ء میں شروع ہونے والی شام کی خانہ جنگی نے 1.2 کروڑ سے زائد افراد کو بے گھر کر دیا، جن میں سے 65 لاکھ سے زیادہ مہاجرین دوسرے ممالکمیں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ ان مثالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جبری ہجرت کے اثرات کتنے تباہ کن ہوتے ہیں، جس میں روزگار کا نقصان، ثقافتی شناخت کا زوال اور مہاجرین کی نسلوں کی مشکلات شامل ہیں۔

اقوام متحدہ نے مہاجرین کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ 1951ء کا جنیوا مہاجر کنونشن پناہ گزینوں کے حقوق کا تعین کرتا ہے اور ریاستوں پر یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ وہ کسی بھی پناہ گزین کو ایسے ملک واپس نہ بھیجیں جہاں اسے ظلم و ستم کا سامنا ہو۔ مزید برآں، پائیدار ترقی کے اہداف میں ایسے اہداف شامل ہیں جن کا مقصد عدم مساوات کو کم کرنا اور بے گھر آبادی کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ پائیدار ترقی کے ہدف 10 محفوظ، منظم اور باقاعدہ ہجرت کی اہمیت پر زور دیتا ہے، جو انسانی وقار کو برقرار رکھنے کے لیے بین الاقوامی برادری کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کا ہائی کمشنر برائے مہاجرین پناہ گزینوں کو انسانی امداد فراہم کرنے اور ان کے حقوق کی وکالت کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جبری نقل مکانی کو جبر یا تشدد کے بجائے قانونی اور انسانی بنیادوں پر حل کیا جائے۔

جبری ہجرت کے مسئلے کی سب سے نمایاں مثال فلسطین کا معاملہ ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے فلسطینی عوام کو قبضے، بے دخلی اور ان کی شناخت کو مٹانے کی کوششوں کا سامنا ہے۔ فلسطینیوں کو کسی اور ملک میں زبردستی بسانے کا تصور نہ صرف اخلاقی طور پر ناقابل قبول بلکہ قانونی طور پر بھی ناجائز ہے۔ ان کا اپنی سرزمین پر تاریخی اور قانونی حق ہے، جسے اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین میں تسلیم کیا گیا ہے۔ کسی بھی طاقت کے ذریعے فلسطینیوں کو جبراً بے دخل کرنا درحقیقت فلسطینی سرزمین پر غیر قانونی قبضے کے مترادف ہوگا، جس کی بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت کی جاتی رہی ہے۔ چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت قابض طاقت کو کسی بھی صورت میں مقبوضہ علاقے کی آبادی کو زبردستی بے دخل کرنے کی اجازت نہیں، جو اس عمل کو غیر قانونی ثابت کرتا ہے۔

کیا دنیا ایسا ظلم برداشت کرے گی؟ تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ بین الاقوامی ردعمل اکثر سیاسی مفادات کے تابع ہوتا ہے نہ کہ اخلاقی اصولوں کے۔ اگرچہ بین الاقوامی قانون واضح ہے، لیکن اس کا نفاذ طاقتور ممالک کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔ طاقتور ممالک اکثر اپنے مفادات کی خاطر عالمی اصولوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہی معاملہ فلسطین کے ساتھ بھی ہے، جہاں عالمی طاقتوں کی حمایت اسرائیل کو قانونی اور اخلاقی حدود کی خلاف ورزی کی اجازت دے رہی ہے۔ اگر انصاف کو یقینی بنایا جائے تو بین الاقوامی قانون کا یکساں نفاذ ہونا چاہیے تاکہ کوئی قوم دوسری قوم کو جبری بے دخل نہ کر سکے۔

یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہودی قوم، جسے نازی جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں مظالم کا سامنا کرنا پڑا، آج فلسطینیوں کو جبری بے دخلی اور جبر کا سامنا کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک اور المناک ستم ظریفی ہے۔ تاریخی مظالم کو انصاف اور انسانی حقوق کے فروغ کا ذریعہ بننا چاہیے تھا، لیکن اس کے برعکس تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، اور اب فلسطینی اس ظلم کے شکار ہو رہے ہیں۔ یہ معاملہ صرف تاریخی انتقام کا نہیں بلکہ ایک سیاسی حقیقت ہے جو طاقت، جغرافیائی مفادات اور نظریاتی تنازعات سے جڑا ہوا ہے۔

اس امر میں کسی شک و شبہ کی گنجاٗش نہیں کہ  کسی بھی قوم کی جبری ہجرت، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ دنیا کو انصاف، ہمدردی اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں پر کاربند ہونا چاہیے۔ سفارتی حل اور باہمی مذاکرات ہی تنازعات کے حل کا بہترین ذریعہ ہیں، جبکہ جبر اور تشدد سے گریز کرنا ناگزیر ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ اس طرح کے اقدامات کو روکیں اور جبری بے دخل ہونے والی اقوام کو تحفظ، مدد اور دوبارہ آبادکاری کے مواقع فراہم کریں۔

تاریخ ہمیں جبری ہجرت کے تباہ کن اثرات دکھا چکی ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان تجربات سے سیکھیں اور ایسی دنیا قائم کریں جہاں کوئی بھی اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور نہ ہو۔ انسانی حقوق کے عالمی اصول ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں، اور ہمیں ان کی پاسداری کرتے ہوئے ایک منصفانہ اور پرامن دنیا کی تشکیل کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

شیر تخطائف Previous post علی شیر تخطائف اور گورنر سردار سلیم حیدر خان کا ازبکستان-پاکستان شراکت داری کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار
اٹلی کے ایلبا جزیرے پر شدید بارشوں کے باعث سیلاب، زندگی مفلوج Next post اٹلی کے ایلبا جزیرے پر شدید بارشوں کے باعث سیلاب، زندگی مفلوج