
وزیرِ خارجہ عباس عراقچی کا علاقائی تعاون اور فلسطینی مسئلے کے منصفانہ حل پر زور
تہران، یورپ ٹوڈے: ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران تہران کی جانب سے ہمسایہ اور علاقائی ممالک کے ساتھ کیے گئے متعدد اعلیٰ سطحی دورے اور سفارتی روابط اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران خطے میں اعتماد سازی اور باہمی تعاون کے فروغ کے لیے پُرعزم ہے۔
یہ بات انہوں نے ناروے کے شہر اوسلو میں منعقدہ 22ویں اوسلو فورم کے موقع پر بدھ کے روز مختلف خارجہ پالیسی امور پر ایران کے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہی۔
وزیرِ خارجہ نے فلسطینی سرزمین پر گزشتہ 80 برس سے جاری ناجائز قبضے اور اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا،
“مشرق وسطیٰ کے لیے ایک مختلف مستقبل صرف اسی وقت ممکن ہے جب فلسطینی مسئلے کا ایک منصفانہ اور پائیدار حل نکالا جائے۔”
انہوں نے اسرائیل کے حامی ممالک کو ان جرائم میں “شریک جرم” قرار دیتے ہوئے عالمی برادری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ عراقچی نے کہا،
“گزشتہ آٹھ دہائیوں کے دوران بین الاقوامی برادری کی سب سے بڑی ناکامی فلسطینی عوام کے بنیادی اور انسانی حقوق کی فراہمی میں ناکامی رہی ہے، جو خطے میں کشیدگی، بحران اور عدم استحکام کا بنیادی سبب بنی ہے۔”
انہوں نے ایران کے دیرینہ مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطینی عوام کے حق خودارادیت، غاصبانہ قبضے اور نسل کشی کے خلاف ہے اور ایک متحد فلسطینی ریاست کے قیام کا حامی ہے، جو حقیقی فلسطینی عوام کی خواہشات پر مبنی ہو۔
اپنے خطاب میں وزیرِ خارجہ نے ایران کی علاقائی پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایران نے گزشتہ دس ماہ میں خطے کے ممالک سے جو مسلسل اعلیٰ سطحی مشاورت اور دورے کیے ہیں، وہ خود انحصاری پر مبنی اجتماعی سلامتی اور پائیدار استحکام کے حصول کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خطے کو سیکیورٹی کے تناظر سے ترقی و تعاون کے تناظر میں بدلنے کی ضرورت ہے۔
عراقچی نے کہا:
“اگرچہ ماضی میں ہماری سرزمین پر براہِ راست غیر ملکی مداخلت ایک کھلی نوآبادیاتی حقیقت تھی، لیکن آج کل کی غیر علاقائی طاقتوں کی عسکری اور سیاسی مداخلتیں کلاسیکی نوآبادیات سے کہیں زیادہ خطرناک اور تباہ کن ثابت ہو رہی ہیں۔”
انہوں نے خطے کے عوام کے درمیان موجود تاریخی، ثقافتی اور مذہبی روابط کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ مستقل ہمسایہ ممالک کو چاہیے کہ وہ باہمی ورثے پر انحصار کرتے ہوئے ایک محفوظ اور ترقی یافتہ خطے کی تشکیل کے لیے مل کر کام کریں۔
عراقچی نے ایران اور امریکا کے درمیان جاری بالواسطہ مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
“اگر مقصد ایرانی عوام پر عائد غیر قانونی پابندیوں کا مؤثر خاتمہ اور ایران کے جوہری پروگرام کی پُرامن نوعیت کو یقینی بنانا ہے، تو معاہدہ نہ صرف ممکن بلکہ جلد طے پا سکتا ہے۔ تاہم ایران اپنے بین الاقوامی قانونی حقوق سے محروم رہنے یا قانون سے خارج کیے جانے کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔”
یہ بیان ایران کی متحرک خارجہ پالیسی، فلسطین سے وابستگی، اور علاقائی استحکام کے لیے خلوص نیت سے کی جانے والی کوششوں کی واضح عکاسی کرتا ہے۔