
فرانس کا یورپی یونین کی کمزور تجارتی حکمتِ عملی پر اظہارِ تشویش، آئندہ مذاکرات میں سخت مؤقف اپنانے کا عندیہ
پیرس، یورپ ٹوڈے: فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے بدھ کے روز کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان حالیہ تجارتی مذاکرات میں برسلز کے طرزِ عمل پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’یورپ کو ابھی تک اپنی طاقت کا احساس نہیں، اور آزاد رہنے کے لیے خوف پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہم اتنا خوف پیدا نہیں کر سکے۔‘‘
ماکروں نے واضح کیا کہ یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈیر لَیئن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان اختتامِ ہفتہ طے پانے والا فریم ورک معاہدہ ’’حتمی نہیں‘‘ ہے اور آئندہ مذاکرات میں فرانسیسی موقف مزید سخت ہو گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’فرانس نے ہمیشہ مضبوط اور پُرعزم موقف اپنایا ہے، اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘‘
معاہدے کے مطابق، جسے یکم اگست کی آخری تاریخ سے قبل طے کیا گیا، یورپی یونین کی بیشتر برآمدات پر امریکہ کی جانب سے 15 فیصد درآمدی محصول عائد ہو گی—جو کہ قبل از ٹرمپ دور کی شرح سے زیادہ، لیکن امریکی ابتدائی تجویز کردہ 30 فیصد شرح سے کم ہے۔ اس کے بدلے یورپی یونین اگلے تین برسوں میں امریکہ سے 750 ارب ڈالر مالیت کی مائع قدرتی گیس، تیل اور جوہری ایندھن خریدنے کے ساتھ ساتھ امریکی معیشت میں 600 ارب ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری کرے گی۔
صدر ماکروں نے اعتراف کیا کہ ’’مذاکرات مشکل حالات میں ہوئے، مگر نتیجے نے قلیل مدت کے لیے پیش نگاہی اور یقین دہانی فراہم کی ہے اور خصوصاً ہوا بازی جیسے کلیدی برآمدی شعبوں میں فرانسیسی و یورپی مفادات محفوظ رہے ہیں۔‘‘ اُنہوں نے مزید کہا کہ یہ صرف ایک فریم ورک ہے اور حتمی تفصیلات طے کرتے وقت یورپی یونین ’’نئی چھوٹیں‘‘ حاصل کر سکتی ہے۔
بعد ازاں وزیرِ خزانہ ایریک لومبار نے بھی صدر کے مؤقف کی تائید کی۔ وزارتِ خزانہ میں بریفنگ دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’یورپی یونین کے اندر بعض مرحلوں پر مذاکراتی حکمتِ عملی مطلوبہ جوش و جذبہ سے محروم رہی۔ یہی وہ بات ہے جس کی جانب صدر نے اشارہ کیا کہ ہمیں اپنی بات منوانے اور وزن ڈالنے کی صلاحیت بہتر بنانا ہو گی۔‘‘
پیرس کے ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ فرانس آئندہ ٹرانس اٹلانٹک معاشی مذاکرات میں زیادہ مضبوط اور جارحانہ یورپی آواز کے حق میں بھرپور زور دے گا۔