میکرون

فرانسیسی صدر میکرون کا کیمرون میں نوآبادیاتی دور کی “جنگ” اور جبری تشدد میں فرانس کے کردار کا اعتراف

پیرسا، یورپ ٹوڈے: فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے کہ فرانس نے کیمرون میں آزادی کی تحریکوں کے خلاف ایک “جنگ” لڑی، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد کے برسوں میں “جبری تشدد” سے عبارت تھی۔

منگل کو ایلیزے محل کی جانب سے جاری کیے گئے ایک خط میں، جو گزشتہ ماہ کیمرون کے صدر پال بیا کو بھیجا گیا تھا، میکرون نے اس تنازع میں فرانس کے کردار اور ذمہ داری کو تسلیم کیا، جس میں دسیوں ہزار افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔ یہ بیان جنوری میں شائع ہونے والی اس سرکاری رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں کیمرون کی آزادی کی جدوجہد کو دبانے میں فرانس کے کردار کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

میکرون نے اپنے خط میں لکھا، ’’کمیشن کے مورخین نے واضح طور پر بتایا کہ کیمرون میں ایک جنگ ہوئی تھی، جس کے دوران نوآبادیاتی حکام اور فرانسیسی فوج نے ملک کے بعض حصوں میں مختلف نوعیت کا جبری تشدد کیا — ایک ایسی جنگ جو 1960 کے بعد بھی جاری رہی، جب فرانس نے آزاد کیمرون حکومت کی کارروائیوں کی حمایت کی۔ آج مجھ پر لازم ہے کہ میں ان واقعات میں فرانس کے کردار اور ذمہ داری کو تسلیم کروں۔‘‘

تاریخی پس منظر اور باضابطہ تحقیق

یہ بیان ایک دو سالہ تحقیق کے بعد سامنے آیا ہے، جو 14 رکنی تاریخی کمیشن نے کی، جس میں فرانسیسی اور کیمرونی مورخین شامل تھے۔ یہ کمیشن میکرون نے 2022 میں یاوونڈے کے اپنے دورے کے دوران قائم کیا تھا۔ محققین نے 1945 سے 1971 کے عرصے کا جائزہ لینے کے لیے خفیہ دستاویزات، عینی شاہدین کے بیانات اور فیلڈ ریسرچ استعمال کی۔

رپورٹ کے مطابق، 1956 سے 1961 کے درمیان فرانس نے آزادی کے حامی گروہوں کو کچلنے کے لیے بڑے پیمانے پر جبری نقل مکانی کرائی، حراستی کیمپ چلائے، اور ملیشیاؤں کی مدد کی۔ کیمرون کا بیشتر علاقہ 1918 سے فرانسیسی نوآبادیاتی تسلط میں تھا، جب پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد اسے فرانس کے زیرِ انتظام کر دیا گیا۔ تاہم آزادی کی یہ خونی جدوجہد فرانس میں زیادہ جانی پہچانی نہ ہو سکی کیونکہ اسے الجزائر کی جنگِ آزادی (1954–1962) نے پس منظر میں دھکیل دیا۔

کیمرون کی 1960 میں آزادی کے بعد بھی فرانس نے صدر احمدو آہیدجو کی ’’آمرانہ اور خود مختار‘‘ حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے، جو 1982 میں ان کے استعفے تک جاری رہے۔ ان کے جانشین پال بیا تاحال منصب صدارت پر فائز ہیں اور 92 برس کی عمر میں دنیا کے معمر ترین برسرِ اقتدار سربراہِ مملکت ہیں۔ بیا رواں سال اکتوبر میں آٹھویں مدتِ صدارت کے لیے امیدوار ہیں، جبکہ حزبِ اختلاف کو متعدد رکاوٹوں کا سامنا ہے، جن میں آئینی عدالت کی جانب سے ان کے بڑے حریف مورس کامتو کی نااہلی بھی شامل ہے۔

مزید تحقیق اور تعلیمی اقدامات کا عزم

میکرون نے کہا کہ فرانس محققین کو اپنے آرکائیوز تک مزید رسائی دے گا تاکہ اس موضوع پر مزید تحقیق کی جا سکے، اور ایک دوطرفہ ’’ورکنگ گروپ‘‘ تشکیل دینے کی تجویز دی تاکہ تحقیقی اور تعلیمی اقدامات کو جاری رکھا جا سکے۔

یہ اعتراف فرانس کی نوآبادیاتی تاریخ کے متنازع ابواب کا سامنا کرنے کی میکرون کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے۔ حالیہ برسوں میں وہ روانڈا میں 1994 کے نسل کشی میں فرانس کی ’’انتہائی بڑی ذمہ داری‘‘ اور الجزائر کی جنگِ آزادی کے دوران کیے گئے مظالم پر رپورٹس کی توثیق کر چکے ہیں، اگرچہ الجزائر کے معاملے پر انہوں نے باضابطہ معافی مانگنے سے انکار کیا ہے۔

وزیر خارجہ Previous post ایرانی وزیر خارجہ کا غزہ میں صحافیوں کے قتل پر مغربی ممالک کی ” خاموشی” پر شدید احتجاج
2025 اوساکا Next post ایکسپو 2025 اوساکا میں رومانیہ کے پویلین کے 5 لاکھویں مہمان کا خیرمقدم