کشمیر

کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے

کہا جاتا تھا کہ برطانوی سلطنت پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا — یہ جملہ فخر کا بھی تھا اور طنز کا بھی۔ کیونکہ جس طرح اس سلطنت کی حدود براعظموں تک پھیلی ہوئی تھیں، اسی طرح اس کے سائے بھی تاریخ کے کئی خطوں پر دراز ہوگئے۔ برطانوی تاج کے تحت کیے گئے دو فیصلوں نے جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں وہ بیج بوئے جن کی جڑیں آج بھی خون میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ایک فیصلہ برصغیر کی تقسیم کا تھا، جو 1947 میں ہوا جس میں کشمیر کے تناظر میں بد نیتی پر مبنی سرحدی لکیریں کھینچی گئیں ، اور دوسرا 1917 کا بالفور اعلامیہ۔ دونوں فیصلے امن اور انصاف کے نام پر پیش کیے گئے، مگر دراصل یہ دائمی تنازعات کی تمہید ثابت ہوئے۔

جنوبی ایشیا میں ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کو آزادی اور خود ارادیت کا مظہر قرار دیا گیا۔ مگر سر سیریل ریڈ کلف کی کھینچی ہوئی جلدباز لکیروں کے پیچھے سازشوں اور مصلحتوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ اس کا سب سے واضح ثبوت گرداسپور کا ضلع ہے، جو مسلم اکثریت کے باوجود بھارت کو دے دیا گیا۔ یہی ایک فیصلہ کشمیر کی تقدیر بدلنے کا سبب بنا۔ گرداسپور وہ واحد زمینی راستہ تھا جس کے ذریعے بھارت نے جموں و کشمیر تک رسائی حاصل کی اور چند ہی مہینوں میں اپنی فوجیں وہاں داخل کر دیں۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کردار، جس پر مؤرخین نے ہمیشہ سوال اٹھائے ہیں، آج تک جانبداری کے شائبے سے مبرا ثابت نہیں ہو سکا۔ بعد ازاں برطانوی سرکاری ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ تقسیم کی سرحدوں میں آخری لمحات میں ترمیم ماؤنٹ بیٹن کے دفتر کے دباؤ پر کی گئی تاکہ بھارت کو تزویراتی برتری حاصل ہو سکے۔

دنیا بھر میں کشمیری 27 اکتوبر 1947 کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں — وہ دن جب بھارت نے کشمیر پر ناجائز قبضے کا آغاز کیا اور پھر انسانی حقوق کی پامالیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک نہیں تھما۔ ایک بددیانت سرحد سے شروع ہونے والا سانحہ اب دنیا کے طویل ترین تنازعات میں سے ایک بن چکا ہے، جہاں انصاف اور انسانیت خاردار تاروں کے پیچھے قید ہیں۔

خود تقسیم برصغیر کا عمل کسی منظم منتقلی کے بجائے قتل و غارت، لوٹ مار اور ہجرت کا طوفان تھا۔ دس لاکھ سے زائد انسان مارے گئے، اور پندرہ ملین کے قریب لوگ بے گھر ہو گئے — انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جبری ہجرتوں میں سے ایک۔ پورے کے پورے گاؤں مٹ گئے، اور سرحد پار کرنے والی ٹرینیں زندہ انسانوں کے بجائے لاشوں سے بھری ہوتی تھیں۔ برطانیہ کا ہندوستان سے انخلا ایک منظم نوآبادیاتی اختتام نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا جلدی میں کیا گیا فرار تھا، جس نے پیچھے تلخی، نفرت اور تقسیم کی داستان چھوڑ دی۔ آج بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات انہی فیصلوں کے زخموں سے عبارت ہیں، اور کشمیر اس المیے کا نہ بھرنے والا ناسور ہے۔

تین دہائیاں قبل مشرقِ وسطیٰ میں بھی ایک ایسا ہی دھوکہ دیا گیا۔ 2 نومبر 1917 کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے برطانوی یہودی رہنما لارڈ لائینل روتھ شائلڈ کے نام ایک خط لکھا — جو تاریخ میں "بالفور اعلامیہ” کہلاتا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ برطانوی حکومت فلسطین میں یہودی قوم کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اُس وقت فلسطین میں عرب مسلمان اور عیسائی اکثریت میں تھے جو صدیوں سے امن کے ساتھ رہتے آئے تھے۔ مگر برطانیہ نے ان کی رائے لیے بغیر ان کی سرزمین دوسروں کو دینے کا وعدہ کر لیا۔

یہ اعلان کسی اخلاقی جذبے کا نہیں بلکہ سیاسی مصلحت کا نتیجہ تھا۔ برطانیہ پہلی عالمی جنگ کے دوران امریکہ اور یورپ کی یہودی برادریوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لہٰذا صیہونی تحریک سے وعدہ محض جنگی حکمتِ عملی تھی، انصاف یا امن کے نام پر نہیں۔ اس کے بعد فلسطینیوں کی بے دخلی کا عمل شروع ہوا، جو برطانوی مینڈیٹ (1920 تا 1948) کے دور میں تیز ہوا، اور آخرکار 1948 کے "نکبہ” میں 7 لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے گھروں سے نکال دیے گئے۔

برطانوی سرکاری ریکارڈ — بشمول 1937 کی پیل کمیشن رپورٹ اور 1939 کے وائٹ پیپرز — اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ برطانیہ عربوں اور یہودیوں کے درمیان انصاف برقرار رکھنے میں ناکام رہا۔ معروف برطانوی مؤرخ سر آرنلڈ ٹائن بی نے مینڈیٹ کے اس کردار کو "ضمیر اور تہذیب کی غداری” قرار دیا۔ آج، ایک صدی بعد بھی فلسطینی قبضے، تقسیم، چیک پوسٹوں اور محاصروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

یوں جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ دونوں میں برطانوی پالیسیوں نے مصنوعی سرحدیں اور دائمی تنازعات پیدا کیے۔ دونوں خطوں میں سلطنت نے اپنی مصلحت کے تحت قوموں کو باہم ٹکرا دیا اور خود رخصت ہوگئی۔ برطانیہ نے اپنے اقدامات کو ہمیشہ قانونی اور سفارتی پردوں میں لپیٹا — کہیں ماؤنٹ بیٹن پلان کے ذریعے، کہیں بالفور اعلامیہ کے ذریعے — مگر تاریخ نے ان تمام پردوں کو چاک کر دیا۔ باقی رہ گیا تو صرف خودغرضی اور اقتدار کی ہوس پر مبنی فیصلوں کا ریکارڈ۔

قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:

اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں انصاف سے نہ روکے۔ انصاف کرو، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ (المائدہ: 8)

انصاف، جو ان قوموں کی پیدائش کے وقت ان سے چھین لیا گیا تھا، آج بھی بحال نہیں ہوا۔ جب انسان نقشوں پر لکیریں کھینچتے ہوئے ان روحوں کو بھول جاتا ہے جو ان زمینوں پر بستے ہیں، تو وہ مستقبل کی جنگوں کے خدوخال بھی کھینچ دیتا ہے۔

برطانوی سلطنت اپنے اقتدار کے غرور پر نازاں تھی، مگر اس کے زوال کے بعد جو اندھیرا چھایا وہ روشنی سے زیادہ گہرا ثابت ہوا۔ برصغیر کی تقسیم اور فلسطین کا وعدہ محض تاریخی واقعات نہیں — یہ زندہ المیے ہیں جو آج بھی کروڑوں انسانوں کی قسمت پر اثر انداز ہیں۔ لاہور سے لے کر غزہ تک، سری نگر سے یروشلم تک، ان استعماری فیصلوں کی بازگشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔

سلطنتیں آتی ہیں اور جاتی ہیں، مگر ان کے چھوڑے گئے زخم صدیوں تک تازہ رہتے ہیں۔ برطانوی تاج پر سورج تو غروب ہو چکا، مگر جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ پر اس کے سایے آج بھی لمبے اور گہرے ہیں۔ حقیقی امن تب ہی ممکن ہوگا جب تاریخ کے ان مظالم کو تسلیم کیا جائے اور انسانیت یہ سبق سیکھے کہ کسی دوسری قوم کے گھر کی بنیاد پر سلطنت کبھی قائم نہیں رہ سکتی۔

اقوامِ متحدہ Previous post ایران نے ہنوئی میں اقوامِ متحدہ کے انسدادِ سائبر کرائم کنونشن پر دستخط کیے
انڈونیشیا Next post انڈونیشیا نے تیمور-لیستے کو آسیان کا 11واں مکمل رکن بننے پر خوش آمدید کہا