
کلبھوشن یادیو سے جعفر ایکسپریس تک
پاکستان اور بھارت کی تاریخ پیچیدہ اور کشیدہ رہی ہے، جو دیرینہ دشمنی اور حل طلب تنازعات سے عبارت ہے۔ جغرافیائی قربت کے باوجود، 1947 میں تقسیم کے بعد سے بھارت کا رویہ پاکستان کے ساتھ ہمیشہ دشمنانہ رہا ہے۔ براہ راست فوجی محاذ آرائی سے لے کر خفیہ سازشوں تک، بھارت نے مسلسل پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کی جانب سے بار بار امن کی پیشکش کے باوجود، بھارت نے معاندانہ پالیسی اپنائی، جو پانی کی دہشت گردی سے لے کر کھیلوں میں شدت پسندی اور پاکستان کے اندر دہشت گرد کارروائیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔
بھارت کی پاکستان میں تخریب کاری کی سب سے بڑی مثال کل بھوشن یادیو کی گرفتاری ہے، جو 2016 میں بلوچستان سے پکڑا گیا۔ بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر، کل بھوشن یادیو جعلی شناخت کے ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کو چلا رہا تھا۔ اس نے پاکستانی حکام کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ بھارت نے بجائے اسے مسترد کرنے کے، بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں اس کا دفاع کیا، جس سے بھارت کی پاکستان مخالف خفیہ کارروائیوں کا پردہ فاش ہوا۔
اسی طرح، 2019 میں بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ابھینندن ورتھمان کا واقعہ بھی بھارت کی جارحیت کا ثبوت ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد، بھارت نے 26 فروری 2019 کو بالاکوٹ میں فضائی حملہ کیا، جسے دہشت گرد کیمپوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ قرار دیا گیا—مگر عالمی سطح پر اس دعوے کو جھوٹا ثابت کیا گیا۔ اگلے ہی دن، پاکستانی فضائیہ نے بھارتی طیاروں کو پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر مار گرایا اور ابھینندن کو گرفتار کر لیا۔ پاکستان نے خیرسگالی کے طور پر ابھینندن کو رہا کیا، لیکن بھارت کی جارحیت میں کوئی کمی نہ آئی، جس سے یہ ثابت ہوا کہ بھارت امن کی کوششوں کو کمزوری سمجھتا ہے۔
بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کی حمایت کے حوالے سے بھی بھارت کا تخریبی کردار واضح ہے۔ پاکستانی سیکورٹی ادارے کئی بار ایسے شواہد سامنے لا چکے ہیں، جن میں بھارت کی جانب سے بلوچ شدت پسند گروہوں کی مالی اور عسکری مدد کی نشاندہی کی گئی ہے۔ 2020 میں، پاکستان کے وزیر خارجہ نے ایک ڈوزیئر پیش کیا، جس میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کیے گئے تھے، جن میں بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ ریپبلکن آرمی کی مالی معاونت شامل تھی۔ یہ گروہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور اہم تنصیبات پر حملوں میں ملوث رہے ہیں، جن میں کراچی میں چینی قونصلیٹ اور گوادر پورٹ جیسے منصوبے بھی شامل ہیں جو چین-پاکستان اقتصادی راہداری کا اہم حصہ ہیں۔
حال ہی میں، بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کو نشانہ بنانے کا واقعہ بھی بھارتی پشت پناہی سے ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ تحقیقات میں ایسے عناصر کا انکشاف ہوا ہے جو بھارت کے زیر سایہ پاکستان میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ سمیت عالمی برادری نے اس حملے اور اس سے جڑے واقعات کی مذمت کی ہے، لیکن بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام تاحال نہیں اٹھایا گیا۔ یہ عالمی بے حسی اس مسئلے کی شدت کو مزید بڑھا رہی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جب تک مردہ کتا کنویں سے نہیں نکالا جائے گا، پانی صاف نہیں ہوگا۔ محض مذمتیں اور بیانات بھارتی دہشت گردی کو نہیں روک سکتے، بلکہ اس کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے مضبوط اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
بھارت نہ صرف براہ راست دہشت گردی میں ملوث ہے بلکہ آبی دہشت گردی کا بھی مرتکب ہے۔ ایک بالائی دریائی ریاست ہونے کے ناطے، بھارت نے 1960 کے سندھ طاس معاہدے کی بارہا خلاف ورزی کی ہے۔ بھارت نے دریائے جہلم اور چناب پر کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبے تعمیر کر کے پاکستان کے پانیوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی، جس سے پاکستان کی زرعی معیشت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ پانی پر یہ جارحیت پاکستان کی معیشت اور غذائی تحفظ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
بھارت کی دشمنی کھیل کے میدان میں بھی واضح ہے۔ بھارت نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی ہے، جس کی واضح مثال آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 میں دیکھنے کو ملی، جہاں بھارت نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کیا اور دبئی میں نیوٹرل وینیو پر میچ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب حال ہی میں انگلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیمیں بغیر کسی سیکیورٹی خدشے کے پاکستان میں کھیل چکی ہیں۔ اسی طرح، 2023 کے ایشیا کپ میں بھی بھارت نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کیا، جس کی وجہ سے میچز کا ایک ‘ہائبرڈ ماڈل’ اپنانا پڑا اور بھارتی میچز سری لنکا میں کروائے گئے۔ ان فیصلوں سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت کھیلوں کو بھی سیاست کا شکار بنا کر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی سازش کر رہا ہے۔
ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے، پاکستان کو بھارت کے عزائم کے حوالے سے کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ یہ سادہ لوحی ہوگی اگر ہم بھارت سے خیرسگالی یا اچھائی کی توقع رکھیں، جب کہ وہ مسلسل پاکستان کو کمزور کرنے کے درپے ہے۔ سفارتی کوششیں اور علاقائی تعاون اپنی جگہ، لیکن پاکستان کو ایک حقیقت پسندانہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے، جس میں قومی سلامتی کو مستحکم کرنا اور ایسی عالمی و علاقائی شراکت داری کو فروغ دینا شامل ہو جو بھارتی جارحیت کا توڑ کر سکے۔
ایک مضبوط اور خودمختار پاکستان ہی بھارتی دشمنی کا بہترین جواب ہے۔ اندرونی استحکام، دفاعی صلاحیت میں اضافہ، اور عالمی سطح پر بھارت کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرنا ہماری اولین ترجیحات ہونی چاہئیں۔ جتنی جلدی ہم یہ تسلیم کر لیں کہ بھارت محض ایک ناخوشگوار ہمسایہ نہیں بلکہ ایک توسیع پسند مخالف بھی ہے، اتنی ہی جلدی ہم پاکستان کی خودمختاری اور قومی مفادات کا بہتر تحفظ کر سکیں گے۔