
اسلام آباد میں ایتھوپیا۔پاکستان ماحولیاتی تعاون پر ’’گرین ڈائیلاگ‘‘ کانفرنس کا انعقاد
اسلام آباد: بدھ کے روز اسلام آباد میں سفارت کاروں اور ماحولیاتی ماہرین نے ایتھوپیا اور پاکستان کے درمیان ماحولیاتی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے ایک اہم اجلاس میں شرکت کی، جس میں ایتھوپیا کے وسیع پیمانے پر شجرکاری اور دوبارہ جنگلات اگانے کے کامیاب پروگرام پر خصوصی توجہ دی گئی۔
ایتھوپیائی سفارتخانہ اسلام آباد اور بحریہ یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقدہ ’’گرین ڈائیلاگ‘‘ کانفرنس میں ایتھوپیا کے وزیراعظم ڈاکٹر ایبی احمد کے ’’گرین لیگیسی انیشی ایٹو‘‘ کے تحت ماحولیاتی پائیداری کے مشترکہ حل زیرِ بحث آئے۔
افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ایتھوپیا کے سفارتخانے کے ناظم الامور چالاچیو اشیتے نے بتایا کہ اس اقدام کے تحت ملک میں اب تک پھل دار درختوں سے لے کر کافی کے پودوں تک 48 ارب سے زائد پودے لگائے جا چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام زمین کے کٹاؤ کی روک تھام اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے اور پاکستان کو بھی چاہیے کہ ماحولیاتی جھٹکوں سے نمٹنے کے لیے ایسے ہی ’’کلائمیٹ پازیٹو اقدامات‘‘ اپنائے۔
ناظم الامور نے خصوصی طور پر ڈین ایف ایچ ایس ایس بحریہ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر آدم سعود، ڈاکٹر محمد فہیم خان اور ڈاکٹر تحسین زہرہ کی جانب سے کانفرنس کے انعقاد و تنظیم میں کلیدی کردار پر سراہا۔
اجلاس میں ترقی اور فطرت کے مابین بڑھتے ہوئے عدم توازن پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا۔ بحریہ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر جنرل ریئر ایڈمرل نعیم سرور نے خبردار کیا کہ انسانی سرگرمیاں اور بے لگام ٹیکنالوجی ماحولیاتی تباہی کی سب سے بڑی وجہ بن چکی ہیں۔
تاہم، مقررین نے یہ بھی واضح کیا کہ جدید ٹیکنالوجی ماحولیاتی بہتری کیلئے اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ چین کی چونگ چھنگ رینیوایبل انرجی سوسائٹی کے سیکریٹری جنرل ما ڈِنگ پِنگ نے نوجوانوں کے لیے ’’گرین انٹرپرینیورشپ اسٹارٹر کِٹ‘‘ پیش کی، اور بتایا کہ چین کے کئی شہروں میں ڈرون ٹیکنالوجی پر مبنی زرعی نگرانی اور شمسی توانائی کے منصوبوں نے مقامی معیشتوں میں انقلاب برپا کیا ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ایسے ماڈلز جنوبی ایشیا میں بھی سبز معیشت کے فروغ کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
یونیورسٹی آف نارووال کے وائس چانسلر طارق محمود نے پاکستان کی ماحولیاتی کمزوری کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ملک ’’انتہائی نازک‘‘ صورتحال سے گزر رہا ہے، جہاں شدید گرمی کی لہریں، اچانک سیلاب اور حیاتیاتی تنوع میں تیزی سے کمی سنگین خطرات پیدا کر رہی ہے۔ انہوں نے حکمرانوں پر زور دیا کہ وہ ردعمل پر مبنی پالیسیوں کے بجائے پیشگی حکمتِ عملی اپنائیں، معاشرتی عدم مساوات کے خاتمے کی طرف توجہ دیں اور کلائمیٹ فنانسنگ میں نمایاں سرمایہ کاری کریں۔
گفتگو میں سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (SDPI) اور بحریہ یونیورسٹی کے سینٹر فار ریسرچ ایکسیلنس کے ماہرین نے بھی حصہ لیا۔
کانفرنس اس اتفاقِ رائے پر اختتام پذیر ہوئی کہ ماحولیاتی تحفظ کی کوششیں سرحدوں تک محدود نہیں رہ سکتیں، اور اس کے لیے حکومتوں، تعلیمی اداروں اور مقامی برادریوں کے درمیان فوری اور مضبوط تعاون ناگزیر ہے۔