انسانیت سے عاری انسان: ہمارے دور کا بحران

انسانیت سے عاری انسان: ہمارے دور کا بحران

ہم اکیسویں صدی کی تخلیق ہیں، ایک ایسی نسل جو عظیم تکنیکی ترقی اور سماجی تبدیلیوں کی گواہ ہے۔ لیکن ترقی کی اس دوڑ میں، ہم انسانیت کے جوہر سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم نے بے شمار انسان دیکھے، لیکن حقیقی انسانیت کم ہی نظر آتی ہے۔

ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں عیش و عشرت کو اہمیت دی جاتی ہے، جہاں امیر کے پاس بچوں سے زیادہ کمرے ہیں اور غریب کے پاس کمروں سے زیادہ بچے۔ دولت اور محرومی کا یہ تضاد پہلے کبھی اتنا نمایاں نہ تھا۔ ماضی میں معاشرے اجتماعی فلاح و بہبود کے اصولوں پر پروان چڑھتے تھے۔

اسلام سماجی انصاف پر زور دیتا ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے: “اور وہ لوگ جن کے مال میں سوالی اور محروم کا حق مقرر ہے” (سورۃ المعارج 70:24)۔ زکوٰۃ کا نظام، جو اسلام کے پانچ بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے، دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

ہم ایسے وقت میں جی رہے ہیں جہاں ٹیکنالوجی براعظموں کے فاصلے مٹاتی ہے، لیکن ایک ہی کمرے میں بیٹھے لوگوں کے درمیان خلا پیدا کر دیتی ہے۔ اسمارٹ فون، جو ہمیں جوڑنے کے لیے ایجاد کیا گیا تھا، اب ہمیں اپنوں سے دور کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ ماضی میں، سماجی روابط خلوص اور براہِ راست بات چیت پر مبنی ہوتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے انسانی تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا: “مسکرانا بھی صدقہ ہے” (صحیح مسلم)۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حقیقی روابط، ورچوئل تعلقات پر فوقیت رکھتے ہیں۔

جدیدیت نے ہماری ترجیحات بدل دی ہیں۔ ہم سوشل میڈیا کو زیادہ دیکھتے ہیں اور ان مقدس کتابوں کو کم جو کبھی ہماری اخلاقیات کا سرچشمہ تھیں۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: “اور رسول کہے گا، اے میرے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا” (سورۃ الفرقان 25:30)۔ ماضی میں، لوگ مساجد اور گھروں میں قرآن کی تلاوت اور اس پر غور و فکر کرتے تھے، جو ان کے کردار کی تشکیل میں مدد دیتا تھا۔ اگر ہم ایسی روایات کو زندہ کریں، تو روحانی سکون حاصل کر سکتے ہیں۔ آج دنیا میں ایک طرف ایک ماں اپنی ساری محبت اور قربانی سے دس بچوں کی پرورش کرتی ہے، لیکن وہی بچے بڑھاپے میں ماں کی دیکھ بھال کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ قرآن میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے: “اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے اسے تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو سال میں ہے۔ میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو، (آخرکار) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے” (سورۃ لقمان 31:14)۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی عزت نہ کرے” (سنن ابوداؤد)۔

ہم ایسے دور میں ہیں جہاں دولت اور محرومی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ امیر اپنی پرتعیش خوراک ہضم کرنے کے لیے میلوں پیدل چلتے ہیں جبکہ غریب ایک نوالے کی تلاش میں میلوں بھٹکتے ہیں۔ حضرت عمر بن خطابؓ رات کو گلیوں میں گشت کر کے حاجت مندوں کی مدد کرتے اور اسلامی فلاحی نظام کو مضبوط بناتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “تم میں سب سے بہترین وہ ہیں جو دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں اور سلام کو عام کرتے ہیں” (سنن ابوداؤد)۔

ہم ایک ایسے دور میں ہیں جہاں انسانی جسم کو ایک تجارتی شے بنا دیا گیا ہے۔ خواتین کو دوسروں کی تسکین کے لیے نیم برہنہ کر دیا جاتا ہے، جبکہ دوسری جانب کئی خواتین کو اپنا تن ڈھانپنے کے لیے مناسب لباس بھی میسر نہیں۔ اسلام نے حیا اور عفت کو برقرار رکھنے کی تعلیم دی ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: “ایمان والوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں… اور ایمان والی عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں…” (سورۃ النور 24:30)۔ ماضی میں اسلامی معاشروں میں ان اقدار کو فروغ دیا جاتا تھا جو مرد و عورت دونوں کے لیے عزت و احترام کی ضمانت تھے۔

ہمارے فونز میں رابطوں کی فہرست دن بدن بڑھ رہی ہے، لیکن ہمارے تعلقات کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم لوگوں سے گھرے ہونے کے باوجود پہلے سے زیادہ تنہائی محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے پاس بے شمار اشیاء موجود ہیں، لیکن ان کی قدر کرنا بھول گئے ہیں۔ ہم مال و دولت اکٹھا کر رہے ہیں لیکن ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جو زندگی کا حقیقی حسن تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “حقیقی دولت مال و دولت کی بہتات میں نہیں، بلکہ دل کی قناعت میں ہے” (صحیح بخاری)۔

ہم نے اچھی زندگی گزارنے کے ذرائع تو حاصل کر لیے، لیکن اچھی زندگی گزارنے کا ہنر نہیں سیکھا۔ مادی کامیابی کی دوڑ نے ہمیں اندر سے خالی کر دیا ہے۔ قرآن میں نصیحت کی گئی ہے: “اور دنیا میں جو حصہ تمہیں ملا ہے اسے نہ بھولو، اور بھلائی کرو جیسے اللہ نے تمہارے ساتھ بھلائی کی ہے، اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ۔ بے شک، اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا” (سورۃ القصص 28:77)۔ ہمارے اسلاف نے روحانیت اور دنیاوی امور میں توازن قائم رکھا، جس سے وہ نہ صرف ایمان میں مضبوط بلکہ معاشی ترقی میں بھی کامیاب رہے۔

یہ دور اطلاعات کا ہے، لیکن ہم ہر چیز کی قیمت جانتے ہیں مگر کسی چیز کی حقیقی قدر سے ناواقف ہیں۔ ہمارے پاس بہت کچھ ہے، لیکن پھر بھی ہماری زندگیاں خالی ہیں۔ علم حاصل ہو رہا ہے، لیکن دانائی ناپید ہے۔ سہولتیں بڑھ رہی ہیں، لیکن سکون اور اطمینان ناپید ہو چکا ہے۔ انسانی زندگی توازن کے لیے ترس رہی ہے، خلوص کے احیاء کی محتاج ہے، ان اقدار کی بحالی چاہتی ہے جو ہمیں ایک بہتر معاشرہ بنا سکتی ہیں۔ اگر ہم محض جینے کے بجائے حقیقی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کھوئی ہوئی اقدار کو واپس لانا ہوگا۔ تبھی ہم انسانیت کو اس کے حقیقی رنگ میں دیکھ سکیں گے۔

ٹرمپ کا پاکستان کو خراجِ تحسین: کابل ایئرپورٹ حملے کے مرکزی ملزم کی گرفتاری میں تعاون پر شکریہ Previous post ٹرمپ کا پاکستان کو خراجِ تحسین: کابل ایئرپورٹ حملے کے مرکزی ملزم کی گرفتاری میں تعاون پر شکریہ
وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو تسلیم کرنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا Next post وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو تسلیم کرنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا